وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴿12﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (تم تعجب کرو) جب دیکھو کہ گنہگار اپنے پروردگار کے سامنے سر جھکائے ہوں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے کہ نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت وحقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہوگئیں کان کھل گئے۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہوجائیں گے۔ سب اندھا وبہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت (ولو تری اذوقفوا علی النار) میں ہے۔ اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے ۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں ۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والاکیاکرتا ہے۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے آیت (الیوم ننساکم کما نسیتم لقاء یومکم ھذا) آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسے اور آیت میں ہے( لایذوقون فیھا بردا ولاشرابا) وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوا ئے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا۔