وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا ﴿14﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر (فوجیں) اطراف مدینہ سے ان پر آ داخل ہوں پھر ان سے خانہ جنگی کے لئے کہا جائے تو (فوراً) کرنے لگیں اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں ‏
تفسیر ابن كثیر
جہاد سے پیٹھ پھیرنے والوں سے باز پرس ہوگی
جو لوگ یہ عذر کرکے جہاد سے بھاگ رہے تھے کہ ہمارے گھر اکیلے پڑے ہیں جن کا بیان اوپر گذرا۔ ان کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ اگر ان پر دشمن مدینے کے چو طرف سے اور ہر ہر رخ سے آجائے پھر ان سے کفر میں داخل ہونے کا سوال کیا جائے تو یہ بےتامل کفر کو قبول کرلیں گے لیکن تھوڑے خوف اور خیالی دہشت کی بنا پر ایمان سے دست برداری کررہے ہیں۔ یہ ان کی مذمت بیان ہوئی ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہی تو ہیں جو اس سے پہلے لمبی لمبی ڈینگیں مارتے تھے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ہم میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنے والے نہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ جو وعدے انہوں نے اللہ تعالٰی سے کئے تھے اللہ تعالٰی ان کی باز پرس کرے گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ موت وفوت سے بھاگنا لڑائی سے منہ چھپانا میدان میں پیٹھ دکھانا جان نہیں بچاسکتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی کی اچانک پکڑ کے جلد آجانے کا باعث ہوجائے اور دنیا کا تھوڑا سا نفع بھی حاصل نہ ہوسکے۔ حالانکہ دنیا تو آخرت جیسی باقی چیز کے مقابلے پر کل کی کل حقیر اور محض ناچیز ہے۔ پھر فرمایا کہ بجز اللہ کے کوئی نہ دے سکے نہ دلاسکے نہ مددگاری کرسکے نہ حمایت پر آسکے ۔ اللہ اپنے ارادوں کو پورا کرکے ہی رہتا ہے۔