يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿50﴾
‏ [جالندھری]‏ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے انکے مہر دے دیئے ہیں حلال کر دی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے) بطور مال غنیمت دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہارے خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہیں لیکن) یہ اجازت (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) خاص تم کو ہی ہے سب مسلمانوں کو نہیں ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کر دیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات۔
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ پر حلال ہیں ۔ آپ کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ ہاں ام المومنین حضرت حبیبہ بنت ابی سفیان عنہا کا مہر حضرت نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ اور اسی طرح ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مہر صرف ان کی آزادی تھی ۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ بھی تھیں پھر آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کرلیا۔ اور حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا۔ اللہ تعالٰی آپ کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔ اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ پر حلال ہیں ۔ صفیہ اور جویریہ کے مالک آپ ہوگئے تھے پھر آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کی ملکیت میں آئی تھیں ۔ حضرت ماریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے آپ کو فرزند بھی ہوا۔ جن کا نام حضرت ابراہیم تھا ۔ چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لئے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو۔ ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا۔ اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے ۔ جیسے (یخرجہم من الظلمات الی النور۔) اور جیسے( وجعل الظلمات و النور ) یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لئے وہ لفظ ظلمات جمع لائے ۔ اور لفظ نور مفرد لائے ۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جاسکتی ہیں ، پھر فرمایا جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے ۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ نے تسلیم کر لیا۔ اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی۔ مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ قتادہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے ۔ ابن مسعود کی قرائت میں (ولاتی ہاجرن من معک ) پھر فرمایا اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی کے لئے ہبہ کر دیے۔ اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ۔ تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں ۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت (ولا ینفعکم نصحی ان اردت ان انصح لکم ان کان اللہ پریدان یغویکم) میں ۔ یعنی حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمھیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمھیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمھیں کوئی نفع نہیں دے سکتی ۔ اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں (یاقوم ان کنتم امنتم باللہ فعلیہ توکلو ان کنتم مسلمین) یعنی اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اور اگر تم مسلمان ہوگئے ہو تو تمھیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں ۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں ۔ تو ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئے ۔ آپ نے فرمایا تمھارے پاس کچھ ہے ؟ جو انہیں مہر میں دیں ؟ جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا ۔ آپ نے فرمایا تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے ۔ انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا ۔ آپ نے فرمایا قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمھیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔ آپ نے فرمایا بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمھارے نکاح میں دیا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ۔ حضرت انس جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیا تھی۔ تو آپ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں (بخاری) مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کر کے کہنے لگیں کے حضور میری مراد یہ ہے کہ آپ اس سے نکاح کرلیں ۔ آپ نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں ۔ یہاں تک کہ کہا حضور نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ نے فرمایا پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں ۔ اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں ۔ ممکن ہے ام سلیم ہی حضرت خولہ ہوں رضی اللہ عنہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں ۔ خدیجہ ، عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالٰی عنہا۔ یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا اورحضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے ۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی ، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا۔ دو کنزیں تھیں ۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت حضرت میمونہ بنت حارث تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے ۔ اور یہ روایت مرسل ہے ۔ یہ مشہور بات ہے کہ حضرت زینب جن کی کنیت ام المساکین تھی، یہ زینب بنت خزیمہ تھیں ، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں ۔ رضی اللہ تعالٰی عنہا۔ واللہ اعلم، مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ کو دیا تھا چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں ۔ جب یہ آیت اتری کہ( ترجی من تشاء منھن وتووی الیک من تشاء) الخ، تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالٰی نے آپ پر خوب وسعت و کشادگی کر دی ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو ۔ حضرت یونس بن بکیر فرماتے ہیں گو آپ کے لئے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ کو سونپ دے آپ اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ نے ایسا کیا نہیں ۔ کیونکہ یہ امر آپ کی مرضی پر رکھا گیا تھا۔ یہ بات کسی اور کے لئے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے ۔ چنانچہ حضرت بروع بنت واشق کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے ۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کردیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر و اجب ہو جاتا ہے ۔ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو۔ اس لئے کہ آپ کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دے دے۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ تھا۔ اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے ۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں ۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے ۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ پر اس کی پابندیاں نہیں ۔ تاکہ آپ کو کوئی حرج نہ ہو ۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے ۔