إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ﴿57﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جو لوگ خدا اور اسکے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
ملعون و معذب لوگ۔
جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرکے اس کے روکے ہوئے کاموں سے نہ رک کر اس کی نافرمانیوں پر جم کر اسے ناراض کر رہے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں وہ ملعون اور معذب ہیں۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد تصویریں بنانے والے ہیں۔ بخاری و مسلم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکت اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یوں کیا۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرکے پھر زمانے کو برا کہتے تھے گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تو اس پر بھی بعض لوگوں نے باتیں بنانا شروع کی تھیں۔ بقول ابن عباس یہ آیت اس بارے میں اتری۔ آیت عام ہے کسی طرح بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دے وہ اس آیت کے ماتحت ملعون اور معذب ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ کو ایذاء دینی گویا اللہ کو ایذاء دینی ہے۔ جس طرح آپ کی اطاعت عین اطاعت الٰہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں دیکھو اللہ کو بیچ میں رکھ کر تم سے کہتا ہوں کہ میرے اصحاب کو میرے بعد نشانہ نہ بنالینا میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت رکھنا ان سے بغض دبیر رکھنے والا مجھ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ انہیں جس نے ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی یقین مانو کہ اللہ اس کی بھوسی اڑا دے گا۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے۔ جو لوگ ایمانداروں کی طرف ان برائیوں کو منسوب کرتے ہیں۔ جن سے وہ بری ہیں وہ بڑے بہتان باز اور زبردست گناہ گار ہیں۔ اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں پھر رافضی شیعہ جوصحابہ پر عیب گیری کرتے ہیں اور اللہ نے جن کی تعریفیں کی ہیں یہ انہیں برا کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ انصار و مہاجرین سے خوش ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی مدح و ستائش موجود ہے۔ لیکن یہ بےخبر کند ذہن انہیں برا کہتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن سے وہ بالکل الگ ہیں۔ حق یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل اوندھے ہوگئے ہیں اس لئے ان کی زبانیں بھی الٹی چلتی ہیں۔ قابل مدح لوگوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت والوں کی تعریفیں کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ آپ فرماتے ہیں تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جسے اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم ہو۔ آپ سے سوال ہوا کہ اگر وہ بات اس میں ہو تب؟ آپ نے فرمایا جبھی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے۔ (ترمذی) ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ سب سے بڑی سود خواری کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ جانے اور اللہ کا رسول۔ آپ نے فرمایا سب سے بڑا سود اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔