يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿59﴾
‏ [جالندھری]‏ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا کر (گھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟ 
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالٰی مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہےآزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالٰی تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے ۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے، راندہ درگاہ ہو جائیں گے، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو۔