وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿28﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‏
تفسیر ابن كثیر
تمام اقوام کے لئے نبوت۔
اللہ تعالٰی اپنے بندے اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ جیسے اور جگہ ہے (قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا) یعنی اعلان کر دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے( تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان کو ہوشیار کر دے۔ یہ بھی فرمایا کہ "اطاعت گذاروں کو بشارت جنت کی دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم کی ۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے" جیسے فرمایا (وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین) گو تو ہر چند چاہے تاہم اکثر لوگ بے ایمان رہیں گے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا " اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف تھی۔ عرب عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے۔ لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا۔ بخاری مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے کہ مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی گیں۔ مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ میری امت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا تھا۔ میرے لئے غنیمت حلال کر دی گئی۔ مجھے شفاعت دی گئی۔ ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا اور حدیث میں ہے سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یعنی جن وانس عرب و عجم کی طرف، پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی؟ جیسے اور جگہ ہے بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں۔ جواب دیتا ہے کہ تمہارے لئے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیر و تاخیر، کمی و زیادتی ناممکن ہے۔ جیسے فرمایا (ان اجل اللہ اذا جاء لا یوخرہ ) اور فرمایا (ومانوخرہ الالاجل معدود) الخ، یعنی وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت۔