وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ﴿34﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ جو چیز دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اسکے قائل نہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
نبی اکرم کے لئے تسلیاں ۔
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور اگلے پیغمبروں کی سی سیرت رکھنے کو فرماتا ہے۔ فرماتا ہے کہ جس بستی میں جو رسول گیا اس کا مقابلہ ہوا۔ بڑے لوگوں نے کفر کیا، ہاں غربا نے تابعداری کی جیسے کہ قوم نوح نے اپنی نبی سے کہا تھا (انومن لک واتبعک الارذلون) الخ ہم تجھ پر کیسے ایمان لائیں تیرے ماننے والے تو سب نیچے درجے کے لوگ ہیں۔ یہی مضمون دوسری آیت (ومانرک اتبعک) الخ، میں ہے۔ قوم صالح کے متکبر لوگ ضعیفوں سے کہتے ہیں (اتعلمون صالحا مرسل من ربہ) الخ، کیا تمہیں حضرت صالح کے نبی ہونے کا یقین ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم تو مومن ہیں۔ تو متکبرین نے صاف کہا کہ ہم نہیں مانتے۔ اور آیت میں ہے( وکذالک فتنا) الخ، یعنی اسی طرح ہم نے ایک کو دو سرے سے فتنے میں ڈالا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم سب میں سے احسان کیا۔ کیا اللہ شکر گذاروں کو جاننے والا نہیں؟ اور فرمایا ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگ مجرم اور مکار ہوتے ہیں اور فرمان ہے (واذا اردنا ان نھلک قریتہ امرنا مترفیھا) الخ، جب کسی بستی کی ہلاکت کا ہم ارادہ کرتے ہیں تو اس کے سرکش لوگوں کو کچھ احکام دیتے ہیں وہ نہیں مانتے پھر ہم انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ہم نے جس بستی میں کوئی نبی اور رسول بھیجا وہاں کے جاہ و حشمت شان و شوکت والے رئیسوں، امیروں، سرداروں اور بڑے لوگوں نے جھٹ اپنے کفر کا اعلان کر دیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابو رزین فرماتے ہیں کہ دو شخص آپس میں شریک تھے ایک تو سمندر پار چلا گیا، ایک وہیں رہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس نے اپنے ساتھی سے لکھ کر دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب میں لکھا کہ گرے پڑے لوگوں نے اس کی بات مانی ہے۔ شریف قریشیوں نے اس کی اطاعت نہیں کی۔ اس خط کو پڑھ کر وہ اپنی تجارت چھوڑ چھاڑ کر سفر کر کے اپنے شریک کے پاس پہنچا۔ یہ پڑھا لکھا آدمی تھا، کتابوں کا علم اسے حاصل تھا۔ اس سے پوچھا کہ بتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ معلوم کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس چیز کی طرف بلاتے ہیں؟ آپ نے اسلام کے ارکان اس کے سامنے بیان فرمائے۔ وہ اسے سنتے ہی ایمان لے آیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں اس کی تصدیق کیونکر ہو گئی؟ اس نے کہا اس بات سے کہ تمام انبیاء کے ابتدائی ماننے والے ہمیشہ ضعیف مسکین لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اس پر یہ آیتیں اتریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کر ان سے کہلوایا کہ تمہاری بات کی سچائی اللہ تعالٰی نے نازل فرمائی۔ اسی طرح ہرقل نے کہا تھا جب کہ اس نے ابوسفیان سے ان کی جاہلیت کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دریافت کیا تھا کہ کیا شریف لوگوں نے ان کی تابعداری کی ہے یا ضعیفوں نے؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا کہ ضعیفوں نے۔ اس پر ہرقل نے کہا تھا کہ ہر رسول کی اولاً تابعداری کرنے والے یہی ضعیف لوگ ہوتے ہیں، پھر فرمایا یہ خوش حال لوگ ومال و اولاد کی کثرت پر ہی فخر کرتے ہیں اور اسے اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ پسندیدہ ہیں اللہ کے ۔ اگر اللہ کی خاص عنایت و مہربانی ان پر نہ ہوتی تو انہیں یہ نعمتیں نہ دیتا اور جب یہاں رب مہربان ہے تو آخرت میں بھی وہ مہربان ہی رہے گا۔ قرآن نے ہر جگہ اس کا رد کیا ہے ایک جگہ فرمایا( ایحسبون انما نمدھم ) الخ، کیا ان کا خیال ہے کہ مال و اولادا کی اکثریت ان کے لئے بہتر ہے؟ نہیں بلکہ برائی ہے لیکن یہ بےشعور ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے (ولاتعجبک اموالھم) الخ، ان کی مال و اولاد تجھے دھوکے میں نہ ڈالے اس سے انہیں دنیا میں بھی سزا ہوگی اور مرتے دم تک یہ کفر پر ہی رہیں گے اور آیات میں ہے( ذرنی ومن خلقت وحیدا) الخ، یعنی مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دے جسے بہت سے فرزند دے رکھے ہیں اور ہر طرح کا عیش اس کے لئے مہیا کر دیا ہے۔ تاہم اسے طمع ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔ ایسا نہیں یہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ اسے میں دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھاؤں گا۔ اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہوا ہے جس کے دو باغ تھے، مال والا پھلوں والا اولاد والا تھا۔ لیکن کسی چیز نے کوئی فائدہ نہ دیا عذاب الٰہی سے سب چیزیں دنیا میں ہی تباہ اور خاک سیاہ ہو گئیں۔ اللہ جس کی روزی کشادہ کرنا چاہے، کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی تنگ کرنا چاہے، تنگ کر دیتا ہے۔ دنیا میں تو وہ اپنے دوستوں دشمنوں سب کو دیتا ہے۔ غنی یا فقیر ہونا اس کی رضامندی اور ناراضگی کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس میں اورحکمتیں ہوتی ہیں۔ جنہیں اکثر لوگ جان نہیں سکتے، مال و اولاد کو ہماری عنایت کی دلیل بنانا غلطی ہے۔ یہ کوئی ہمارے پاس مرتبہ بڑھانے والی چیز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔ 
(مسلم) ہاں اس کے پاس درجات دلانے والی چیز ایمان اور نیک اعمال ہیں۔ ان کی نیکیوں کے بدلے انہیں بہت بڑھا چڑھا کر دیئے جائیں گے۔ ایک ایک نیکی دس دس گنا بلکہ سات سات سو گنا کر کے دی جائے گی۔ جنت کی بلند ترین منزلوں میں ہر ڈر خوف سے، غم سے پر امن ہوں گے۔ کوئی دکھ درد نہ ہو گا۔ ایذاء اور صدمہ نہ ہو گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے۔ ایک اعرابی نے کہا یہ بالا خانے کس کے لئے ہیں؟ آپ نے فرمایا جو نرم کلامی کرے، کھانا کھلائے، بکثرت روزے رکھے اور لوگوں کی نیند کے وقت تہجد پڑھے۔ (ابن ابی حاتم) جو لوگ اللہ کی راہ سے اوروں کو روکتے ہیں ، رسولوں کی تابعداری سے لوگوں کو باز رکھتے ہیں، اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہیں کرتے ، وہ جہنم کی سزا میں حاضر کئے جائیں گے اور برا بدلہ پائیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی حکمت کاملہ کے مطابق جسے چاہے بہت ساری دنیا دیتا ہے اور جسے چاہے بہت کم دیتا ہے کوئی سکھ چین میں ہے کوئی دکھ درد میں مبتلا ہے۔ رب کی حکمتوں کو کوئی نہیں جان سکتا اس کی مصلحتیں وہی خوب جانتا ہے۔ جیسے فرمایا (انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض ولاخرۃ اکبر درجات واکبر تفضیلا) تو دیکھ لے کہ ہم نے کس طرح ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے اور البتہ آخرت درجوں اور فضیلتوں میں بہت بڑی ہے۔ یعنی جس طرح فقر و غنا کے ساتھ درجوں کی اونچ نیچ یہاں ہے۔ اسی طرح آخرت میں بھی اعمال کے مطابق درجات و درکات ہوں گے۔ نیک لوگ تو جنتوں کے بلند و بالا خانوں میں اور بد لوگ جہنم کے نیچے کے طبقے کے جیل خانوں میں دنیا میں سب سے بہتر شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ ہے جو سچا مسلمان ہو اور بقدر کفایت روزی پاتا ہو اور اللہ کی طرف سے قناعت بھی دیا گیا ہو۔ (مسلم) اللہ کے حکم یا اس کی اباحت کے ماتحت تم جو کچھ خرچ کرو گے اس کا بدلہ وہ تمہیں دونوں جہان میں دے گا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ہر صبح ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اللہ بخیل کے مال کو تلف اور برباد کر دوسرا دعا کرتا ہے اللہ خرچ کرنے والے کو نیک بدلہ دے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بلال خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے تنگی کا خیال بھی نہ کر۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تمہارے اس زمانے کے بعد ایسا زمانہ آ رہا ہے جو کاٹ کھانے الا ہو گا۔ مال ہو گا لیکن مالدار نے گویا اپنے مال پر دانت گاڑے ہوئے ہوں گے کہ کہیں خرچ نہ ہو جائے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت میں( وما انفقتم) الخ، کی تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے بدترین لوگ وہ ہیں جو بےبس اور مضطر لوگوں کی چیزیں کم داموں خریدتے پھریں۔ یاد رکھو ایسی بیع حرام ہے، مضطر کی بیع حرام ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے رسوا کرے۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کر ورنہ اس کی ہلاکت کو تو نہ بڑھا (ابو یعلی موصلی) یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور ضعیف بھی ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہیں اس آیت کا غلط مطلب نہ لے لینا۔ اپنے مال کو خرچ کرنے میں میانہ روی کرنا۔ روزیاں بٹ چکی ہیں، رزق مقسوم ہے۔