وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ ﴿40﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تم کو پوجا کرتے تھے؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
مشرکین سے سوال ۔
مشرکین کو شرمندہ لاجواب اور بےعذر کرنے کیلئے ان کے سامنے فرشتوں سے سوال ہو گا۔ جن کی مصنوعی شکلیں بنا کر یہ مشرک دنیا میں پوجتے رہے کہ وہ انہیں اللہ سے ملا دیں۔ سوال ہو گا کہ کیا تم نے انہیں اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا؟ جیسے سورہ فرقان میں ہے (اانتم اضللتم عبادی ھولاء ام ھم ضلوا السبیل) یعنی کیا تم نے انہیں گمراہ کیا تھا؟ یہ خود ہی بہکے ہوئے تھے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہی سوال ہو گا کہ کیا تم لوگوں سے کہہ آئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری اور میری ماں کی عبادت کرنا؟ آپ جواب دیں گے کہ اللہ تیری ذات پاک ہے جو کہنا مجھے سزا وار نہ تھا، اسے میں کیسے کہدیتا؟ اسی طرح فرشتے بھی اپنی برات ظاہر کریں گے اور کہیں گے تو اس سے بہت بلند اور پاک ہے تیرا کوئی شریک ہو۔ ہم تو خود تیرے بندے تھے ہم ان سے بیزار رہے اور اب بھی ان سے الگ ہیں۔ یہ شیاطین کی پرستش کرتے تھے۔ شیطانوں نے ہی ان کے لئے بتوں کی پوجا کو مزین کر رکھا تھا اور انہیں گمراہ کر دیا تھا ان میں سے اکثر کا شیطان پر ہی اعتقاد تھا۔ جیسے فرمان باری ہے (ان یدعون من دونہ الا انا ثاوان یدعون الا شیطانا مریدا العنہ اللہ) یعنی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عورتوں کی پرستش کرتے ہیں اور سرکش شیطان کی عبادت کرتے ہیں۔ جس پر اللہ کی پھٹکار ہے، پس جن جن سے تم مشرکو! لو(امید) لگائے ہوئے تھے، ان میں سے ایک بھی آج تمہیں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا۔ اس شدت و کرب کے وقت یہ سارے جھوٹے معبود تم سے یک سو ہو جائیں گے کیونکہ انہیں کسی کے کسی طرح کے نفع و ضرر کا اختیار تھا ہی نہیں۔ آج ہم خود مشرکوں سے فرما دیں گے کہ لو جس عذاب جہنم کو جھٹلا رہے تھے آج اس کا مزہ چکھو۔