قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿47﴾
‏ [جالندھری]‏ کہہ دو کہ میں نے تم سے کچھ صلہ مانگا ہو تو وہ تمہارا میرا صلہ خدا ہی کے ذمے ہے اور وہ ہرچیز سے خبردار ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
مشرکین کو دعوت اصلاح ۔
حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت (یلقی الروح) الخ، ہے یعنی اللہ تعالٰی اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے۔ جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے ۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں، اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آ چکی۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہو گیا۔ جیسے فرمان ہے (بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھوزاھق) ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے (وقل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا) حق آ گیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا۔ (بخاری۔ مسلم) باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہو گیا۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کر سکے، نہ مردے کو زندہ کر سکے، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے۔ بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ واللہ اعلم، پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت و بیان و رشد ہے۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے۔