وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَلِكَ النُّشُورُ ﴿9﴾
‏ [جالندھری]‏ اور خدا ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر ہم انکو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیتے ہیں اسی طرح مردوں کو جی اٹھنا ہوگا ‏
تفسیر ابن كثیر
موت کے بعد زندگی ۔
قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔ جیسے سورہ حج وغیرہ میں ہے۔ بندوں کے لئے اس میں پوری عبرت اور مردوں کے زندہ ہونے کی پوری دلیل اس میں موجود ہے کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے، کوئی ترو تازگی اس میں نظر نہیں آتی لیکن بادل اٹھتے ہیں، پانی برستا ہے کہ اس کی خشکی تازگی سے اور اس کی موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھا یا کوسوں تک ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بنو آدم کے اجزاء قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے ایک سے ایک الگ ہو گا۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میں سے اگنے لگیں گے۔ جیسے زمین سے دانے الگ آتے ہیں۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس سے ترکیب دیا جائے گا۔ یہاں بھی نشان بتا کر فرمایا کہ اسی طرح موت کے بعد کی زیست ہے۔ سورہ حج کی تفسیر میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ ابورزین رضی اللہ عالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ اور اس کی مخلوق میں اس بات کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا اے ابورزین کیا تم اپنی بستی کے آس پاس کی زمین کے پاس سے اس حالت میں نہیں گذرے کہ وہ خشک بنجر پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ پھر دوبارہ تم گذرتے ہو تو دیکھتے ہو کہ وہ سبزہ زار بنی ہوئی ہے اور تازگی کے ساتھ لہرا رہی ہے۔ حضرت ابو زرین نے جواب دیا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا بس اسی طرح اللہ تعالٰی مردوں کو زندہ کر دے گا، جو شخص دنیا اور آخرت میں باعزت رہنا چاہتا ہو اسے اللہ تعالٰی کی اطاعت گذاری کرنی چاہئے وہی اس مقصد کا پورا کرنے والا ہے، دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔ ساری عزتیں اسی کی ملکیت میں ہیں۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہماری عزت ہو وہ عزت کے حصول سے مایوس ہو جائیں کیونکہ عزت تو اللہ کے قبضے میں ہیں اور جگہ فرمان عالی شان ہے تجھے ان کی باتیں غم ناک نہ کریں، تمام تر عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور آیت میں اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے 
یعنی عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور ایمان والوں کے لئے لیکن منافق بےعلم ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بتوں کی پرستش میں عزت نہیں عزت والا تو اللہ تعالٰی ہی ہے۔ پس بقول قتادہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ طالب عزت کو احکام اللہ کی تعمیل میں مشغول رہنا چاہئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو یہ جاننا چاہتا ہو کہ کس کے لئے عزت ہے وہ جان لے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ ذکر تلاوت دعا وغیرہ پاک کلمے اسی کی طرف چڑھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جتنی حدیثیں تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں۔ سب کی تصدیق کتاب اللہ سے پیش کر سکتے ہیں۔ سنو! مسلمان بندہ جب 
پڑھتا ہے تو ان کلمات کو فرشتہ اپنے پر تلے لے کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔ فرشتوں کے جس مجمع کے پاس سے گذرتا ہے وہ مجمع ان کلمات کے کہنے والے کے لئے استغفار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ رب العالمین عزوجل کے سامنے یہ کلمات پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر آپ نے (الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح ) یرفعہ کی تلاوت کی۔ (ابن جریر) حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر عرش کے اردگرد آہستہ آہستہ آواز نکالتے رہتے ہیں۔ جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ اپنے کہنے والے کا ذکر اللہ کے سامنے کرتے رہتے ہیں اور نیک اعمال خزانوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ اللہ کا جلال اس کی تسبیح اس کی حمد اس کی بڑائی اس کی وحدانیت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لئے ان کے یہ کلمات عرش کے آس پاس اللہ کے سامنے ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی نہ کوئی تمہارا ذکر تمہارے رب کے سامنے کرتا رہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان ہے کہ پاک کلموں سے مراد ذکر اللہ ہے اور عمل صالح سے مراد فرائض کی ادائیگی ہے ۔ پس جو شخص ذکر اللہ اور ادائے فریضہ کرے اس کا عمل اس کے ذکر کو اللہ تعالٰی کی طرف چڑھاتا ہے۔ اور جو ذکر کرے لیکن فریضہ ادا نہ کرے اس کا کلام اس کے عمل پر لوٹا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کلمہ طیب کو عمل صالح لے جاتا ہے اور بزرگوں سے بھی یہی منقول ہے بلکہ ایاس بن معاویہ قاضی فرماتے ہیں قول بغیر عمل کے مردود ہے۔ برائیوں کے گھات میں لگنے والے وہ لوگ ہیں جو مکاری اور ریا کاری کے سے اعمال کرتے ہوں۔ لوگوں پر گویہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کرتے ہیں لکین دراصل اللہ کے نزدیک وہ سب سے زیادہ برے ہیں جو نیکیاں صرف دکھاوے کی کرتے ہیں۔ یہ ذکر اللہ بہت ہی کم کرتے ہیں ۔ عبدالرحمٰن فرماتے ہیں اس سے مراد مشرک ہیں۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ یہ آیت عام ہے مشرک اس میں بطریق اولیٰ داخل ہیں۔ ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر فاسد و باطل ہے۔ ان کا جھوٹ آج نہیں تو کل کھل جائے گا عقل مند ان کے مکر سے واقف ہو جائیں گے۔ جو شخص جو کچھ کرے اس کا اثر اس کے چہرے پر ہی ظاہر ہو جاتا ہے اس کی زبان اسی رگن سے رنگ دی جاتی ہے۔ جیسا باطن ہوتا ہے اسی کا عکس ظاہر پر بھی پڑتا ہے۔ ریا کار کی بے ایمانی لمبی مدت تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہاں کوئی بےوقوف اس کے دام میں پھنس جائے تو اور بات ہے۔ مومن پورے عقل مند اور کامل دانا ہوتے ہیں وہ ان دھوکے بازوں سے بخوبی آگاہ ہو جاتے ہیں اور اس عالم الغیب اللہ پر تو کوئی بات بھی چھپ نہیں سکتی، اللہ تعالٰی نے تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے جاری رکھا۔ پھر تمہیں جوڑا جوڑا بنایا یعنی مرد و عورت۔ یہ بھی اس کا لطف و کرم اور انعام واحسان ہے کہ مردوں کے لئے بیویاں بنائیں جو ان کے سکون و راحت کا سبب ہیں۔ ہر حاملہ کے حمل کی اور ہر بچے کے تولد ہونے کی اسے خبر ہے۔ بلکہ ہر پتے کے جھڑنے اور اندھیرے میں پڑے ہوئے دانے اور ہر ترو خشک چیز کا اسے علم ہے بلکہ اس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا ہے۔ اسی آیت جیسی (اللہ یعلم ما تحمل کل انثی)
الخ، ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی گذر چکی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالٰی عالم الغیب کو یہ بھی علم ہے کہ کس نطفے کو لمبی عمر ملنے والی ہے۔ یہ بھی اس کی پاس لکھا ہوا ہے (وماینقص من عمرہ) میں ہ کی ضمیر کا مرجع جنس ہے۔ عین ہی نہیں اس لئے کہ طول عمر کتاب میں ہے اور اللہ تعالٰی کے علم میں اس کی عمر سے کمی نہیں ہوتی۔ جنس کی طرف بھی ضمیر لوٹتی ہے۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے عندی ثوب و نصفہ یعنی میرے پاس ایک کپڑا ہے اور دوسرے کپڑے کا آدھا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جس شخص کے لئے میں نے طویل عمر مقدر کی ہے وہ اسے پوری کر کے ہی رہے گا لیکن وہ لمبی عمر میری کتاب میں لکھی ہوئی ہے وہیں تک پہنچے گی اور جس کے لئے میں نے کم عمر مقرر کی ہے اس کی حیات اسی عمر تک پہنچے گی یہ سب کچھ اللہ کی پہلی کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے اور رب پر یہ سب کچھ آسان ہے۔ عمر کے ناقص ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو نطفہ تمام ہونے سے پہلے ہی گر جاتا ہے وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ بعض انسان سو سو سال کی عمر پاتے ہیں اور بعض پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ ساٹھ سال سے کم عمر میں مرنے والا بھی ناقص عمر والا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں عمر کی لمبائی یا کمی لکھ لی جاتی ہے۔ ساری مخلوق کی یکساں عمر نہیں ہوتی کوئی لمبی عمر والا کوئی کم عمر والا۔ یہ سب اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے اور اسی کے مطابق ظہور میں آ رہا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ جو اجل لکھی گئی ہے اور اس میں سے جو گذر رہی ہے سب علم اللہ میں ہے اور اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو یہ چاہے کہ اس کی روزی اور عمر بڑھے وہ صلہ رحمی کیا کرے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی کی اجل آ جانے کے بعد اسے مہلت نہیں ملتی۔ زیادتی عمر سے مراد نیک اولاد کا ہونا ہے جس کی دعائیں اسے اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر میں پہنچتی رہتی ہے یہی زیادتی عمر ہے۔ یہ اللہ پر آسان ہے اس کا علم اس کے پاس ہے۔ اس کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے۔ اس پر کچھ مخفی نہیں۔