وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا ﴿42﴾
‏ [جالندھری]‏ اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو یہ ہر ایک امت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں مگر جب ان کے پاس ہدایت کرنے والا آیا تو اس سے ان کو نفرت ہی بڑھی ‏
تفسیر ابن كثیر
قسمیں کھا کر مکرنے والے ظالم۔
قریش نے اور عرب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بڑی سخت قسمیں کھا رکھی تھیں کہ اگر اللہ کا کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں آئے تو ہم تمام دنیا سے زیادہ اس کی تابعداری کریں گے۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے (ان تقولوا انما انزل الکتاب) الخ، یعنی اس لئے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے کی جماعتوں پر تو البتہ کتابیں اتریں۔ لیکن ہم تو ان سے بےخبر ہی رہے۔ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے بہت زیادہ راہ یافتہ ہو جاتے۔ تو لو اب تو خود تمہارے پاس تمہارے رب کی بھیجی ہوئی دلیل آ پہنچی ہدایت و رحمت خود تمہارے ہاتھوں میں دی جا چکی اب بتاؤ کہ رب کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں اور ان سے منہ موڑنے والوں سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ اور آیتوں میں ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اپنے پاس اگلے لوگوں کے عبرتناک واقعات ہوتے تو ہم تو اللہ کے مخلص بندے بن جاتے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس کے ان کے پاس آچکنے کے بعد کفر کیا اب انہیں عنقریب اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور رب کی آخری اور افضل تر کتاب آ چکی لیکن یہ کفر میں اور بڑھ گئے، انہوں نے اللہ کی باتیں ماننے سے تکبر کیا خود نہ مان کر پھر اپنی مکاریوں سے اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکا۔ لیکن انہیں باور کر لینا چاہئے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑے گا۔ یہ اللہ کا نہیں البتہ اپنا بگاڑ رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکاریوں سے پرہیز کرو مکر کا بوجھ مکار پر ہی پڑتا ہے اور اس کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی۔ حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ تین کاموں کاکرنے والا نجات نہیں پا سکتا،ان کاموں کا وبال ان پر یقینا آئے گا،مکر،بغاوت اور وعدوں کو توڑ دینا پھرآپ نے یہی آیت پڑھی،انہیں صرف اسی کا انتظار ہے جو ان جیسے ان پہلے گزرنے والوں کا حال ہوا کہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے اللہ کے دائمی عذب ان پر آ گئے۔ پس یہ تو اللہ تعالٰی کی عادت ہی ہے اور تو غور کر۔ رب کی عادت بدلتی نہیں نہ پلٹتی ہے۔ جس قوم پر عذاب کا ارادہ ہو چکا پھر اس ارادے کے بدلنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتا کہ ان پر سے عذاب ہٹیں نہ وہ ان سے بچیں۔ نہ کوئی انہیں گھما سکے۔ واللہ اعلم۔