يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿30﴾
‏ [جالندھری]‏ بندوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا مگر اس سے تمسخر کرتے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
منکرین کی ندامت۔
بندوں پر حسرت و افسوس ہے۔ بندے کل اپنے اوپر کیسے نادم ہوں گے۔ بار بار کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم نے تو خود اپنا برا کیا۔ بعض قرأتوں میں یا حسرۃ العباد علی انفسھا بھی ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن عذابوں کو دیکھ کر ہاتھ ملیں گے کہ انہوں نے کیوں رسولوں کو جھٹلایا؟ اور کیوں اللہ کے فرمان کے خلاف کیا؟ دنیا میں تو ان کا یہ حال تھا کہ جب کبھی جو رسول آیا انہوں نے بلا تامل جھٹلایا اور دل کھول کر ان کی بے ادبی اور توہین کی۔ وہ اگر یہاں تامل کرتے تو سمجھ لیتے کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے پیغمبروں کی نہ مانی تھی وہ غارت و برباد کر دیئے گئے ان کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ایک بھی تو ان میں سے نہ بچ سکا نہ اس دار آخرت سے کوئی واپس پلٹا ۔ اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو دہریہ تھے جن کا خیال تھا کہ یونہی دنیا میں مرتے جیتے چلے جائیں گے، لوٹ لوٹ کر اس دنیا میں آئیں گے۔ تمام گذرے ہوئے موجود اور آنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے اور وہاں ہر ایک بھلائی برائی کا بدلہ پائیں گے جیسے اور آیت میں فرمایا (وان کلالما لیوفینھم ربک اعمالھم) یعنی ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ تیرا رب عطا فرمائے گا، ایک قرأت میں لما ہے تو ،ان، اثبات کے لئے ہو گا، اور لما پڑھنے کے وقت ،ان، نافیہ ہو گا اور لما معنی میں الا کے ہو گا تو مطلب آیت کا یہ ہو گا کہ نہیں ہیں سب مگر یہ کہ سب کے سب ہمارے سامنے حاضر شدہ ہیں دوسری قرأت کی صورت میں بھی مطلب یہی رہے گا۔ واللہ سبحان و تعالٰی اعلم۔