وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿48﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
قیامت کے بعد کوئی مہلت نہ ملے گی ۔
کافر چونکہ قیامت کے آنے کے قائل نہ تھے اس لئے وہ نبیوں سے اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر قیامت کو لاتے کیوں نہیں؟ اچھا یہ تو بتاؤ کہ کب آئے گی؟ اللہ تعالٰی انہیں جواب دیتا ہے۔ کہ اس کے آنے کے لئے ہمیں کچھ سامان نہیں کرنے پڑیں گے، صرف ایک مرتبہ صور پھونک دیا جائے گا۔ دنیا کے لوگ روزمرہ کی طرح اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہوں گے جب اللہ تعالٰی حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہیں لوگ ادھر ادھر گرنے شروع ہو جائیں گے اس آسمانی تیز و تند آواز سے سب کے سب محشر میں اللہ کے سامنے جمع کر دیئے جائیں گے اس چیخ کے بعد کسی کو اتنی بھی مہلت نہیں ملنی کہ کسی سے کچھ کہہ سن سکے، کوئی وصیت اور نصیحت کر سکے اور نہ ہی انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی طاقت رہے گی۔ اس آیت کے متعلق بہت سے آثار و احادیث ہیں جنہیں ہم دوسری جگہ وارد کر چکے ہیں۔ اس پہلے نفخہ کے بعد دوسرا نفخہ ہو گا جس سے سب کے سب مر جائیں گے، کل جہان فنا ہو جائے گا، بجز اس ہمیشگی والے اللہ عزوجل کے جسے فنا نہیں۔ اس کے بعد پھر جی اٹھنے کا نفخہ ہو گا۔