فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ ﴿11﴾
‏ [جالندھری]‏ تو ان سے پوچھو کہ ان کا بنانا مشکل ہے یا جتنی خلقت ہم نے بنائی ہے؟ ان کا انہیں ہم نے چپکتے ہوئے گارے سے بنایا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ان منکرین قیامت سے پوچھو کہ تمہارا پیدا کرنا ہم پر مشکل ہے ؟ یا آسمان و زمین فرشتے جن وغیرہ کا ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت ام من عددنا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا اقرار تو انہیں بھی ہے کہ پھر مر کر جینے کا انکار کیوں کر رہے ہیں؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بڑی اور بہت بھاری پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں۔ پھر انسان کی پیدائشی کمزوری بیان فرماتا ہے کہ یہ چکنی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں لیس تھا جو ہاتھوں پر چپکتی تھی۔ تو چونکہ حقیقت کو پہنچ گیا ہے ان کے انکار پر تعجب کر رہا ہے کیونکہ اللہ کی قدرتیں تیرے سامنے ہیں اور اس کے فرمان بھی۔ لیکن یہ تو اسے سن کر ہنسی اڑاتے ہیں۔ اور جب کبھی کوئی واضح دلیل سامنے آجاتی ہے تو مسخرا پن کرنے لگتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔ ہم کسی طرح اسے نہیں ماننے کے کہ مر کر مٹی ہو کر پھر جی اٹھیں بلکہ ہمارے باپ دادا بھی دوسری زندگی میں آجائیں ہم تو اس کے قائل نہیں۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہدو کہ ہاں تم یقینا دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے۔ تم ہو کیا چیز اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہو، اس کی وہ ذات ہے کہ کسی کی اس کے سامنے کوئی ہستی نہیں۔ فرماتا ہے (کل اتوہ داخرین) ہر شخص اس کے سامنے عاجزی اور لاچاری سے حاضر ہونے والا ہے۔ ایک آیت میں ہے (ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین) میری عبادت سے سرکشی کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جنہم میں جائیں گے۔ پھر اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے کہ جسے تم مشکل سمجھتے ہو، وہ مجھ پر تو بالکل ہی آسان ہے صرف ایک آواز لگتے ہی ہر ایک زمین سے نکل کر دہشت ناکی کے ساتھ اہوال و احوال قیامت کو دیکھنے لگے گا۔ واللہ اعلم