وَقَالُوا يَا وَيْلَنَا هَذَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿20﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کہیں گے ہائے شامت یہی جزا کا دن ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
قیامت والے دن کفار کا اپنے تئیں ملامت کرنا اور پچھتانا اور افسوس و حسرت کرنا بیان ہو رہا ہے کہ وہ نادم ہو کر قیامت کے دہشت خیز اور وحشت انگیز امور کو دیکھ کر کہیں گے ہائے ہائے یہی تو روز جزا ہے۔ تو مومن اور فرشتے بطور ڈانٹ ڈپٹ اور ندامت بڑھانے کے ان سے کہیں گے ہاں یہی تو وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم سچا نہیں مانتے تھے۔ اس دن اللہ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ظالموں کو ان کے جوڑوں کو ان کے بھائی بندوں کو اور ان جیسوں کو ایک جاجمع کرو۔ مثلاً زانی زانیوں کے ساتھ سود خوار سود خواروں کے ساتھ شرابی شرابیوں کے ساتھ وغیرہ ایک قول یہ بھی ہے کہ ظالموں کو اور ان کی عورتوں کو ، لیکن یہ غریب ہے۔ ٹھیک مطلب یہی ہے کہ انہی جیسوں کو اور ان کے ساتھ ہی جن بتوں کو اور جن جن کو شریک اللہ یہ مقرر کئے ہوئے تھے سب کو جمع کرو۔ پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ جیسے فرمان ہے۔ (ونحشر ھم یوم القیامتہ علی وجوھہم) الخ، یعنی انہیں ان کے منہ کے بل اندھے بہرے گونگے کرکے ہم جمع کریں گے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس کی آگ جب کبھی ہلکی ہوجائے ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ انہیں جہنم کے پاس کچھ دیر ٹھہرا دوتاکہ ہم ان سے پوچھ گچھ کرلیں۔ ان سے حساب لے لیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کسی کو کسی چیز کی طرف بلائے ۔ وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کھڑاکیا جائے گا نہ بیوفائی ہوگی نہ جدائی ہوگی گو ایک کو ہی بلایا ہو پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی حضرت عثمان بن زائدہ فرماتے ہیں سب سے پہلے انسان سے اس کے ساتھیوں کی بابت سوال کیا جائے گا۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیوں آج ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ تم تو دنیا میں کہتے پھرتے تھے کہ ہم سب ایک ساتھ ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ یہ تو کہاں ؟ بلکہ آج تو یہ ہتھیار ڈال چکے اللہ کے فرمانبردار بن گئے۔ نہ اللہ کے کسی فرمان کا خلاف کریں نہ کرسکیں نہ اس سے بچ سکیں نہ وہاں سے بھاگ سکیں۔ واللہ اعلم۔