وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿123﴾
‏ [جالندھری]‏ اور الیاس بھی پیغمبروں میں سے تھے ‏
تفسیر ابن كثیر
حضرت الیاس علیہ السلام ۔
بعض کہتے ہیں الیاس نام تھا حضرت ادریس علیہ السلام کا ۔ وہب کہتے ہیں ان کا سلسلہ نسب یوں ہے الیاس بن نسی بن فحاص بن عبراز بن ہارون بن عمران علیہ السلام۔ خرقیل علیہ السلام کے بعد یہ نبی اسرائیل میں بھیجے گئے تھے وہ لوگ بعل نامی بت کے پجاری بن گئے تھے۔ انہوں نے دعوت اسلام دی ان کے بادشاہ نے ان سے قبول بھی کرلی لیکن پھر مرتد ہو گیا اور لوگ بھی سرکشی پر تلے رہے اور ایمان سے انکار کر دیا آپ نے ان پر بددعا کی تین سال تک بارش نہ برسی۔ اب تو یہ سب تنگ آ گئے اور قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کہ آپ دعا کیجئے بارش برستے ہی ہم سب آپ کی نبوت پر ایمان لائیں گے۔ چنانچہ آپ کی دعا سے مینہ برسا۔ لیکن یہ کفار اپنے وعدے سے ٹل گئے اور اپنے کفر پر اڑ گئے۔ آپ نے یہ حالت دیکھ کر اللہ سے دعا کی کہ اللہ انہیں اپنی طرف لے لے۔ ان کے ہاتھوں تلے حضرت یسع بن اخطوب پلے تھے۔ حضرت الیاس کی اس دعا کے بعد انہیں حکم ملا کہ وہ ایک جگہ جائیں اور وہاں انہیں جو سواری ملے اس پر سوار ہو جائیں وہاں آپ گئے ایک نوری گھوڑا دکھائی دیا جس پر سوار ہوگئے اللہ نے انہیں بھی نورانی کر دیا اور اپنے پروں سے فرشتوں کے ساتھ اڑنے لگے اور ایک انسانی فرشتہ زمینی اور آسمانی بن گئے۔ اس کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ ہے یہ بات اہل کتاب کی روایت سے حضرت الیاس نے اپنی قوم سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ کہ اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ اہل یمن اور قبیلہ ازوشنوہ رب کو بعل کہتے تھے۔ بعل نامی جس بت کی یہ پوجا کرتے تھے وہ ایک عورت تھی۔ ان کے شہر کا نام بعلبک تھا تو اللہ کے نبی حضرت الیاس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تعجب ہے کہ تم اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر جو خالق کل ہے اور بہترین خلاق ہے ایک بت کو پوج رہے ہو؟ اور اس کو پکارتے رہتے ہو؟ اللہ تعالٰی تم سب کا اور تم سے اگلے تمہارے باپ دادوں کا رب ہے وہی مستحق عبادت ہے اس کے سوا کسی قسم کی عبادت کسی کے لائق نہیں۔ لیکن ان لوگوں نے اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صاف اور خیر خواہانہ نصیحت کو نہ مانا تو اللہ نے بھی انہیں عذاب پر حاضر کر دیا، کہ قیامت کے دن ان سے زبردست باز پرس اور ان پر سخت عذاب ہوں گے۔ ہاں ان میں سے جو توحید پر قائم تھے وہ بچ رہیں گے۔ ہم نے حضرت الیاس علیہ السلام کی ثناء جمیل اور ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی ہی رکھا کہ ہر مسلم کی زبان سے ان پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔ الیاس میں دوسری لغت الیاسین ہے جیسے اسماعیل میں اسماعین بنو اسد میں اسی طرح یہ لغت ہے۔ ایک تمیمی کے شعر میں یہ لغت اس طرح لایا گیا ہے۔ میکائیل کو میکال اور میکائین بھی کہا جاتا ہے۔ ابراہیم کو ابراہام، اسرائیل کو سزائیں، طور سینا کو طور سے سینین ۔ غرض یہ لغت عرب میں مشہور و رائج ہے۔ ابن مسعود کی قرأت میں سلام علی ال یاسین ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو نیک بدلہ دیتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔