وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴿41﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ (بار الہا) شیطان نے مجھ کو ایذا اور تکلیف دے رکھی ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کا صبر ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کے صبر اور امتحان میں پاس ہونے کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ مال برباد ہو گیا اولادیں مر گئیں جسم مریض ہو گیا یہاں تک کہ سوئی کے ناکے کے برابر سارے جسم میں ایسی جگہ نہ تھی جہاں بیماری نہ ہو صرف دل سلامت رہ گیا اور پھر فقیری اور مفلسی کا یہ حال تھا کہ ایک وقت کا کھانا پاس نہ تھا کوئی نہ تھا جو خبر گیر ہوتا سوائے ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے دل میں خوف اللہ تھا اور اپنے خاوند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی۔ لوگوں کا کام کاج کر کے اپنا اور اپنے میاں کا پیٹ پالتی تھیں آٹھ سال تک یہی حال رہا حالانکہ اس سے پہلے ان سے بڑھ کر مالدار کوئی نہ تھا۔ اولاد بھی بکثرت تھی اور دنیا کی ہر راحت موجود تھی۔ اب ہرچیز چھین لی گئی تھی اور شہر کا کوڑا کرکٹ جہاں ڈالا جاتا تھا وہں آپ کو لا بٹھایا تھا۔ اسی حال میں ایک دو دن نہیں سال دو سال نہیں آٹھ سال کامل گذارے اپنے اور غیر سب نے منہ پھیر لیا تھا۔ خیریت پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ صرف آپ کی یہی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت دن اور رات آپ کی خدمت میں کمر بستہ تھیں۔ ہاں پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کے وقت آپ کے پاس سے چلی جاتی تھیں یہاں تک کہ دن پھرے اور اچھا وقت آ گیا تو رب العالمین الہ المرسلین کی طرف تضرع و زاری کی اور کپکپاتے ہوئے کلیجے سے دل سے دعا کی کہ اے میرے پالنہار اللہ مجھے دکھ نے تڑپا دیا ہے اور تو ارحم الراحمین ہے یہاں جو دعا ہے اس میں جسمانی تکلیف اور مال و اولاد کے دکھ درد کا ذکر کیا۔ اسی وقت رحیم و کریم اللہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو۔ پاؤں کے لگتے ہی وہاں ایک چشمہ ابلنے لگا حکم ہوا کہ اس پانی سے غسل کر لو۔ غسل کرتے ہی بدن کی تمام بیماری اس طرح جاتی رہی گویا تھی ہی نہیں۔ پھر حکم ہوا کہ اور جگہ ایڑی لگاؤ وہاں پاؤں مارتے ہی دوسرا چشمہ جاری ہو گیا حکم ہوا کہ اس کا پانی پی لو اس پانی کے پیتے ہی اندرونی بیماریاں بھی جاتی رہیں اور ظاہر و باطن کی عافیت اور کامل تندرستی حاصل ہو گئی۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اٹھارہ سال تک اللہ کے یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دکھ درد میں مبتلا رہے اپنے اور غیر سب نے چھوڑ دیا ہاں آپ کے مخلص دوست صبح شام خیریت خبر کے لئے آ جایا کرتے تھے ایک مرتبہ ایک نے دوسرے سے کہا میرا خیال یہ ہے کہ ایوب نے اللہ کی کوئی بڑی نافرمانی کی ہے کہ اٹھارہ سال سے اس بلا میں پڑا ہوا ہے اور اللہ اس پر رحم کرے اس دوسرے شخص نے شام کو حضرت ایوب علیہ السلام سے اس کی یہ بات ذکر کر دی۔ آپ کو سخت رنج ہوا اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے میری یہ حالت تھی کہ جب دو شخصوں کو آپس میں جھگڑتے دیکھا اور دونوں اللہ کو بیچ میں لاتے تو مجھ سے یہ نہ دیکھا جاتا کہ اللہ تعالٰی کے عزیز نام کی اس طرح یاد کی جائے کیونکہ دو میں سے ایک تو ضرور مجرم ہو گا اور دونوں اللہ کا نام لے رہے ہیں تو میں اپنے پاس سے دے دلا کر ان کے جھگڑے کو ختم کر دیتا کہ نام اللہ کی بے ادبی نہ ہو۔ آپ سے اس وقت چلا بھرا بلکہ اٹھا بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا پاخانے کے بعد آپ کی بیوی صاحبہ آپ کو اٹھا کر لاتی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ نہیں تھیں آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور دعا کی اور اللہ کی طرف سے وحی ہوئی کہ زمین پر لات مار دو۔ بہت دیر کے بعد جب آپ کی بیوی صاحبہ آئیں تو دیکھا کہ مریض تو ہے نہیں کوئی اور شخص تندرست نورانی چہرے والا بیٹھا ہوا ہے پہچان نہ سکیں اور دریافت کرنے لگیں کہ اے اللہ کے نیک بندے یہاں اللہ کے ایک نبی جو درد دکھ میں مبتلا تھے انہیں دیکھا ہے؟ واللہ کہ جب وہ تندرست تھے تو قریب قریب تم جیسے ہی تھے، تب آپ نے فرمایا وہ میں ہی ہوں۔ راوی کہتا ہے آپ کی دو کوٹھیاں تھیں ایک گیہوں کیلئے اور ایک جو کے لئے۔ اللہ تعالٰی نے دو ابر بھیجے ایک میں سونا برسا اور ایک کوٹھی اناج کی اس سے بھر گئی دوسرے میں سے بھی سونا برسا اور دوسری کوٹھی اس سے بھر گئی (ابن جریر) صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر نہا رہے تھے جو آسمان سے سونے کی ٹٹڈیاں برسنے لگیں آپ نے جلدی جلدی انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنی شروع کیں تو اللہ تعالٰی نے آواز دی کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیں غنی اور بےپرواہ نہیں کر رکھا؟ آپ نے جواب دیا ہاں الٰہی بیشک تو نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں سب سے غنی اور بےنیاز ہوں لیکن تیری رحمت سے بےنیاز نہیں ہوں بلکہ اس کا تو پورا محتاج ہوں۔ پس اللہ تعالٰی نے اپنے اس صابر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک بدلہ اور بہتر جزائیں عطا فرمائیں۔ اولاد بھی دی اور اسی کے مثل اور بھی دی بلکہ حضرت حسن اور قتادہ سے منقول ہے کہ مردہ اولاد اللہ نے زندہ کر دی اور اتنی ہی اور نئی دی۔ یہ تھا اللہ کا رحم جو ان کے صبر و استقلال رجوع الی اللہ تواضع اور انکساری کے بدلے اللہ نے انہیں دیا اور عقلمندوں کے لئے نصیحت و عبرت ہے وہ جان لیتے ہیں کہ صبر کا انجام کشادگی ہے اور رحمت و راحت ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی بیوی کے کسی کام کی وجہ سے ان پر ناراض ہو گئے تھے بعض کہتے ہیں وہ اپنے بالوں کی ایک لٹ بیچ کر ان کے لئے کھانا لائی تھیں اس پر آپ ناراض ہوئے تھے اور قسم کھائی تھی کہ شفا کے بعد سو کوڑے ماریں گے دوسروں نے وجہ ناراضگی اور بیان کی ہے۔ جبکہ آپ تندرست اور صحیح سالم ہوگئے تو ارادہ کیا کہ اپنی قسم کو پورا کریں لیکن ایسی نیک صفت عورت اس سزا کے لائق نہ تھیں جو حضرت ایوب نے طے کر رکھی تھی جس عورت نے اس وقت خدمت کی جبکہ کوئی ساتھ نہ تھا اسی لئے رب العالمین ارحم الراحمین نے ان پر رحم کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لئے کھجور کا ایک خوشہ لے لو جس میں ایک سو سیخیں ہوں اور ایک انہیں مار دو اس صورت میں قسم کا خلاف نہ ہو گا اور ایک ایسی صابرہ شاکرہ نیک بیوی پر سزا بھی نہ ہو گی۔ یہی دستور الٰہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس سے ڈرتے رہتے ہیں برائیوں اور بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ پھر اللہ تعالٰی حضرت ایوب کی ثناء و صفت بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صابر و ضابط پایا وہ بڑا نیک اور اچھا بندہ ثابت ہوا۔ اس کے دل میں ہماری سچی محبت تھی وہ ہماری ہی طرف جھکتا رہا اور ہمیں سے لو لگائے رہا، اسی لئے فرمان اللہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی صورت نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ ہو۔ اللہ پر توکل رکھنے والوں کو اللہ کافی ہے۔ اللہ اپنے کام میں پورا اترتا ہے اللہ تعالٰی نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ سمجھدار علماء کرام نے اس آیت سے بہت سے ایمانی مسائل اخذ کئے ہیں واللہ اعلم۔