أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿21﴾
‏ [جالندھری]‏ کتا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی نازل کرتا پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا پھر اس سے کھیتی اگاتا ہے جس کے طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو (کہ) زرد (ہو گئی ہے) پھر اسے چورا چورا کر دیتا ہے بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
زندگی کی بہترین مثال۔
زمین میں جو پانی ہے وہ درحقیقت آسمان سے اترا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں یہ پانی زمین پی لیتی ہے اور اندر ہی اندر وہ پھیل جاتا ہے۔ پھر حسب حاجت کسی چشمہ سے اللہ تعالیٰ اسے نکالتا ہے اور چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔ جو پانی زمین کے میل سے کھارہ ہو جاتا ہے وہ کھارہ ہی رہتا ہے۔ اسی طرح آسمانی پانی برف کی شکل میں پہاڑوں پر جم جاتا ہے۔ جسے پہاڑ چوس لیتے ہیں اور پھر ان میں سے جھرنے بہ نکلتے ہیں۔ ان چشموں اور آبشاروں کا پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے۔ جس سے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جو مختلف قسم کے رنگ و بو کی اور طرح طرح کے مزے اور شکل و صورت کی ہوتی ہیں۔ پھر آخری وقت میں ان کی جوانی بڑھاپے سے اور سبزی زردے سے بدل جاتی ہے۔ پھر خشک ہو جاتی ہے اور کاٹ لی جاتی ہے۔ کیا اس میں عقل مندوں کے لئے بصیرت و نصیحت نہیں؟ کیا وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ اسی طرح دنیا ہے۔ آج ایک جوان اور خوبصورت نظر آتی ہے کل بڑھیا اور بد صورت ہو جاتی ہے۔ آج ایک شخص نوجوان طاقت مند ہے کل وہی بوڑھا کھوسٹ اور کمزور نظر آتا ہے۔ پھر آخر موت کے پنجے میں پھنستا ہے۔ پس عقلمند انجام پر نظر رکھیں بہتر وہ ہے جس کا انجام بہتر ہو۔ اکثر جگہ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے پیدا شدہ کھیتی کے ساتھ دے گئی ہے جیسے (واضرب لھم مثل) الخ، میں۔ پھر فرماتا ہے جس کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا، ذرا سوچو! جس نے رب کے پاس سے نور پا لیا وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہو سکتا ہے۔ حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہو سکتے ہیں؟ جیسے فرمایا(اومن کان میتا) الخ، وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے نور عطا فرمایا جسے اپنے ساتھ لئے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے اور یہ اور وہ جو اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے جن سے چھٹکارا محال ہے۔ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ پس یہاں بھی بطور نصیحت بیان فرمایا کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے احکام الٰہی کو ماننے کے لئے نہیں کھلتے رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگدل اور سخت دل ہیں ان کے لئے ویل ہے خرابی اور افسوس و حسرت ہے یہ بالکل گمراہ ہیں۔