وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ ﴿23﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیاں اور دلیل روشن دے کر بھیجا ‏
تفسیر ابن كثیر
فرعون کا بدترین حکم۔
اللہ تعالٰی اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہے۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہو گی جیسے کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل و براہین کے ساتھ بھیجا، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء علیہم السلام کو دیتے ہے۔ جیسے ارشاد ہے( کذالک مااتی الذین من قبلھم من رسول) الخ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں، جب ہمارے رسول موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کر دیا اس رسول پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کر دو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کر چکا تھا۔ اس لئے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ پیدا نہ ہو جائیں یا اس لئے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث حضرت موسیٰ ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے۔ آپ نے جواب دیا تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہو جائیں بےفائدہ اور فضول تھی۔ فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لئے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا۔ اسی لئے عرب میں یہ مثل مشہو رہو گئی صار الرعن مذاکرا یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے، حضرت موسیٰ کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ ملعوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اے میرے مخاطب لوگو! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں۔