أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ ﴿69﴾
‏ [جالندھری]‏ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں یہ کہاں بھٹک رہے ہیں؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
کفار کو عذاب جہنم اور طوق و سلاسل کی وعید۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اڑتے ہیں؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں؟ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے۔ جیسے فرمایا جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے ، جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں۔ گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے۔ اور آگ جہنم میں جھلسائے جائیں گے۔ جیسے اور جگہ ہے۔ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں۔ اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا (ثم ان مرجعھم لالی الجحیم) کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کطرف ہے۔ سورہ واقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند ، آگے چل کر فرمایا ، اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہوگی۔ اور جگہ فرمایا ہے (ان شجرۃ الزقوم) الخ ، یعنی یقینا گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے۔ جیسے تیز گرم پانی۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریر والا شخص تھا۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کر دیئے جائیں گے۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہوگئے وہ تھے ہی بےسود۔ پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کر دیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ (واللہ ربنا ماکنا مشرکین) اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے۔ یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں ، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بےوجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آ جاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہو جاؤ اب ہمیشہ یہیں پے رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی گرو گے۔ واللہ اعلم۔