قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ ﴿6﴾
‏ [جالندھری]‏ کہہ دو کہ میں (بھی) آدمی ہوں جیسے تم (ہاں) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود خدائے واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
حصول نجات اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ مجھے بذریعہ وحی الٰہی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالٰی ہی ہے۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول سے معلوم ہو۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو۔ ان کی معافی طلب کرو۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں ، جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یعنی بقول ابن عباس لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتے۔ عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے (قد افلح من زکاھا وقد خاب من دساھا) یعنی اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا۔ اور آیت میں فرمایا (قد افلح من تذکی و ذکر اسم ربہ فصلی) یعنی اس نے نجات حاصل کرلی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی۔ اور جگہ ارشاد ہے (ھل لک الی ان تزکی) کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے؟ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بےہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے ، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے۔ مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کر دیتی ہے۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے۔ لیکن امام سعدی ، ماویہ بن قرہ ، قتادہ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر بھی اسی کو مختار کہتے ہیں۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ اس لئے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جاکر ہجرت کے دوسرے سال۔ اور یہ آیت اتری ہے مکے شریف میں۔ زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتدا میں ہی تھا ، جیسے اللہ تبارک و تعالٰی کا فرمان ہے (واتوا حقہ یوم حصادہ) جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو۔ ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی۔ یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ خود نماز کو دیکھئے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہو چکی تھی۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہو گئیں۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کر دیئے گئے واللہ اعلم ، اس کے بعد اللہ تعالٰی جل جلالہ فرماتا ہے۔ کہ اللہ کے ماننے والوں اور نبی کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر و ثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔ جیسے اور جگہ ہے (ماکثین فیہ ابدا) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور فرماتا ہے (عطاء غیر مجذوذ) انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے۔ سدی کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے۔ لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقینا ہے۔ خود قرآن میں ہے۔ (بل اللہ یمن علیکم ان ھدکم للایمان) یعنی بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے۔ جنتیوں کا قول ہے۔ (فمن اللہ علیناو وقانا عذاب السموم پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا۔ رسول کریم علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں مگر یہ کہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں۔