وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ ﴿25﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے (شیطانوں) کو ان کا ہم نشین مقرر کر دیا تھا تو انہوں نے ان کے اگلے اور پچھلے اعمال ان کو عمدہ کر دکھائے تھے اور جنات اور انسانوں کی جماعتیں جو ان سے پہلے گزر چکیں ان پر بھی خدا (کے عذاب) کا وعدہ پورا ہو گیا بیشک یہ نقصان اٹھانے والے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
آداب قرآن حکیم۔
اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے کہ مشرکین کو اس نے گمراہ کر دیا ہے اور یہ اس کی مشیت اور قدرت سے ہے۔ وہ اپنے تمام افعال میں حکمت والا ہے۔ اس نے کچھ جن و انس ایسے ان کے ساتھ کر دیئے تھے۔ جنہوں نے ان کے بداعمال انہیں اچھی صورت میں دکھائے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ دور ماضی کے لحاظ سے اور آئندہ آنے والے زمانے کے لحاظ سے بھی ان کے اعمال اچھے ہی ہیں۔ جیسے اور آیتیں ہے (ومن یعش عن ذکر الرحمن) الخ ، ان پر کلمہ عذاب صادق آ گیا۔ جیسے ان لوگوں پر جو ان سے پہلے جیسے تھے۔ نقصان اور گھاٹے میں یہ اور وہ یکساں ہوگئے ، کفار نے آپس میں مشورہ کرکے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ کلام اللہ کو نہیں مانیں گے نہ ہی اس کے احکام کی پیروی کریں گے۔ بلکہ ایک دوسرے سے کہہ رکھا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو شور و غل کرو اور اسے نہ سنو۔ تالیاں بجاؤ سیٹیاں بجاؤ آوازیں نکالو۔ چنانچہ قریشی یہی کرتے تھے۔ عیب جوئی کرتے تھے انکار کرتے تھے۔ دشمنی کرتے تھے اور اسے اپنے غلبہ کا باعث جانتے تھے۔ یہی حال ہر جاہل کافر کا ہے کہ اسے قرآن کا سننا اچھا نہیں لگتا۔ اسی لئے اس کے برخلاف اللہ تعالٰی نے مومنوں کو حکم فرمایا کہ(واذا قری القرآن فاستمعوالہ) الخ۔ جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور چب رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ، ان کافروں کو دھمکایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سے مخالفت کرنے کی بناء پر انہیں سخت سزا دی جائے گی۔ اور ان کی بدعملی کا مزہ انہیں ضرور چکھایا جائے گا ، ان اللہ کے دشمنوں کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے۔ جس میں ان کیلئے ہمیشہ کا گھر ہے۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ، اس کے بعد آیت کا مطلب حضرت علی سے مروی ہے کہ جن سے مراد ابلیس اور انس سے مراد حضرت آدم کا وہ لڑکا ہے جس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ ابلیس تو ہر مشرک کو پکارے گا۔ اور حضرت آدم کا یہ لڑکا ہر کبیرہ گناہ کرنے والے کو پکارے گا۔ پس ابلیس شرک کی طرف اور تمام گناہوں کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہے اور اول رسول حضرت آدم کا یہ لڑکا جو اپنے بھائی کا قاتل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا گناہ حضرت آدم کے اس پہلے فرزند پر بھی ہوتا ہے کیونکہ قتل بےجا کا شروع کرنے والا یہ ہے۔ پس کفار قیامت کے دن جن و انس جو انہیں گمراہ کرنے والے تھے انہیں نیچے کے طبقے میں داخل کرانا چاہیں گے تاکہ انہیں سخت عذاب ہوں۔ وہ درک اسفل میں چلے جائیں اور ان سے زیادہ سزا بھگتیں۔ سورہ اعراف میں بھی یہ بیان گزر چکا ہے کہ یہ ماننے والے جن کی مانتے تھے ان کیلئے قیامت کے دن دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے جس پر کہا جائے گا کہ ہر ایک دوگنے عذاب میں ہی ہے۔ لیکن تم بےشعور ہو۔ یعنی ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا ہو رہی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے(الذین کفروا وصدو عن سبیل اللہ) الخ۔ یعنی جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم ان کے فساد کی وجہ سے عذاب پر عذاب دیں گے۔