قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴿52﴾
‏ [جالندھری]‏ کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو تو پھر تم اس سے انکار کرو تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو (حق) کی پرلے درجے کی مخالفت میں ہو ‏
تفسیر ابن كثیر
قرآن کریم کی حقانیت کے بعض دلائل
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہو گا ؟ اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو پھر اللہ تعالٰی عزوجل فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے ۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے ۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہو گا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی ۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الیٰ کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب و جبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت ۔ بچپن ، جوانی ، بڑھاپا، بیماری ، تندرستی، تنگی ، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں ۔ شیخ ابو جعفر قرشی نے اپنے اشعار میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا ہے ۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالٰی کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے ۔ جب وہ فرما رہا ہے کہ پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک؟ جیسے ارشاد ہے آیت (ولکن اللہ یشھد بما انزل الیک انزلہ بعلمہ، الخ) یعنی لیکن اللہ تعالٰی اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالٰی کی گواہی کافی ہے پھر فرماتا ہے کہ دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لئے بےفکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں ۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو میں نے تمہیں کسی نئی بات کے لئے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے ۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے۔ آپ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے واللہ اعلم۔ پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز پر اس کا احاطہ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے ، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے ۔