وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ ﴿29﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور ان جانوروں کا جو اس نے ان میں پھیلا رکھے ہیں اور وہ جب چاہے ان کے جمع کر لینے پر قادر ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
آفات اور تکالیف سے خطاؤں کی معافی ہوتی ہے
اللہ تعالٰی کی عظمت قدرت اور سلطنت کا بیان ہو رہا ہے کہ آسمان و زمین اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور ان میں کئی ساری مخلوق بھی اسی کی پیدا کی ہوئی ہے فرشتے انسان جنات اور مختلف قسموں کے حیوانات جو کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا ۔ جبکہ ان کے حواس گم ہو چکے ہوں گے اور ان میں عدل و انصاف کیا جائے گا پھر فرماتا ہے لوگو تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ سب دراصل تمہارے اپنے کئے گناہوں کا بدلہ ہیں اور ابھی تو وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری بہت سی حکم عدولیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور انہیں معاف فرما دیتا ہے اگر ہر اک گناہ پر پکڑے تو تو تم زمین پر چل پھر بھی نہ سکو ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کو جو تکلیف سختی غم اور پریشانی ہوتی ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالٰی اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے یہاں تک کہ ایک کانٹا لگنے کے عوض بھی جب آیت (فمن یعمل مثقالا ذرۃ خیرا) الخ، اتری اس وقت حضرت صدیق اکبر کھانا کھا رہے تھے آپ نے اسے سن کر کھانے سا ہاتھ ہٹا لیا اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر برائی بھلائی کا بدلہ دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا سنو طبیعت کے خلاف جو چیزیں ہوتی ہیں یہ سب برائیوں کے بدلے ہیں اور ساری نیکیاں اللہ کے پاس جمع شدہ ہیں حضرت ابو ادریس فرماتے ہیں یہی مضمون اس آیت میں بیان ہوا امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں کتاب اللہ شریف کی افضل ترین آیت سناؤں اور ساتھ ہی حدیث بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے یہ آیت تلاوت کی اور میرا نام لے کر فرمایا سن میں اس کی تفسیر بھی تجھے بتا دوں تجھے جو بیماریاں سختیاں اور بلائیں آفتیں دنیا میں پہنچتی ہیں وہ سب بدلہ ہے تمہارے اپنے اعمال کا اللہ تعالٰی کا حکم اس سے بہت زیادہ ہے کہ پھر انہی پر آخرت میں بھی سزا کرے اور اکثر برائیاں معاف فرما دیتا ہے تو اس کے کرم سے یہ بالکل ناممکن ہے کہ دنیا میں معاف کی ہوئی خطاؤں پر آخرت میں پکڑے (مسند احمد ) ابن ابی حاتم میں یہی روایت حضرت علی ہی کے قول سے مروی ہے اس میں ہے کہ ابو حجیفہ جب حضرت علی کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جسے یاد رکھنا ہر مومن کا فرض ہے پھر یہ تفسیر آیت کی اپنی طرف سے کر کے سنائی مسند میں ہے کہ مسلمان کے جسم میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالٰی اس کے گناہ معاف فرماتا ہے ۔ مسند ہی کی اور حدیث میں ہے جب ایمان دار بندے کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اور اس کے کفارے کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں ہوتی تو اللہ اسے کسی رنج و غم میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہی اس کے ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ابن ابی حاتم میں حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ اس آیت کے اترنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ لکڑی کی ذرا سی خراش ہڈی کی ذرا سی تکلیف یہاں تک کہ قدم کا پھسلنا بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہے اور ابھی اللہ کے عفو کئے ہوئے بہت سے گناہ تو یونہی مٹ جاتے ہیں ابن ابی حاتم ہی میں ہے کہ جب حضرت عمران بن حصین کے جسم میں تکلیف ہوئی اور لوگ ان کی عیادت کو گئے تو حضرت حسن نے کہا آپ کی یہ حالت تو دیکھی نہیں جاتی ہمیں بڑا صدمہ ہو رہا ہے آپ نے فرمایا ایسا نہ کہو جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب گناہوں کا کفارہ ہے اور بھی بہت سے گناہ تو اللہ معاف فرما چکا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی ہے۔ ابو البلاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علاء بن بدر سے کہا کہ قرآن میں تو یہ آیت ہے اور میں ابھی نابالغ بچہ ہوں اور اندھا ہو گیا ہوں آپ نے فرمایا یہ تیرے ماں باپ کے گناہوں کا بدلہ ہے حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ قرآن پڑھ کر بھول جانے والا یقینا اپنے کسی گناہ میں پکڑا گیا ہے ۔ اس کی اور کوئی وجہ نہیں پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا بتاؤ تو اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوگی کہ انسان یاد کر کے کلام اللہ بھول جائے ۔