أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿21﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور انکی زندگی اور موت یکساں ہوگی یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
اصل دین چار چیزیں ہیں
اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مومن و کافر برابر نہیں جیسے اور آیت میں ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں جنتی کامیاب ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کفر و برائی والے اور ایمان و اچھائی والے موت و زیست میں دنیا و آخرت میں برابر ہو جائیں ۔ یہ تو ہماری ذات اور ہماری صفت عدل کے ساتھ پرلے درجے کی بدگمانی ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت ابوذر فرماتے ہیں چار چیزوں پر اللہ تعالٰی نے اپنے دین کی بنا رکھی ہے جو ان سے ہٹ جائے اور ان پر عامل نہ بنے وہ اللہ سے فاسق ہو کر ملاقات کرے گا پوچھا گیا کہ وہ چاروں چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا یہ کہ کامل عقیدہ رکھے کہ حلال حرام حکم اور ممانعت یہ چاروں صرف اللہ کی اختیار میں ہیں اس کے حلال کو حلال اس کے حرام بتائے ہوئے کو حرام ماننا ، اس کے حکموں کو قابل تعمیل اور لائق تسلیم جاننا ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز آجانا اور حلال حرام امر و نہی کا مالک صرف اسی کو جاننا بس یہ دین کی اصل ہے ۔ حضرت ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس طرح ببول کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہو سکتے اسی طرح بدکار لوگ نیک کاروں کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے یہ حدیث غریب ہے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ کعبتہ اللہ کی نیو میں سے ایک پتھر نکلا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہوئے نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاردار درخت میں سے انگور چننا چاہتا ہو ۔ طبرانی میں ہے کہ حضرت تمیم داری رات بھر تہجد میں اسی آیت کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر فرماتا ہے اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ہر ایک شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا اور کسی پر اس کی طرف سے ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا پھر اللہ تعالٰی جل و علا فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھی دیکھا جو اپنی خواہشوں کو اللہ بنائے ہوئے ہیں ۔ جس کام کی طرف طبیعت جھکی کر ڈالا جس سے دل رکا چھوڑ دیا ۔ یہ آیت معتزلہ کے اس اصول کو رد کرتی ہے کہ اچھائی برائی عقلی ہے۔ حضرت امام مالک اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے دل میں جس کی عبادت کا خیال گذرتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہے اس کے بعد کے جملے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے علم کی بناء پر اسے مستحق گمراہی جان کر گمراہ کر دیا دوسرا معنی یہ کہ اس کے پاس علم و حجت دلیل و سند آگئی پھر اسے گمراہ کیا ۔ یہ دوسری بات پہلی کو بھی مستلزم ہے اور پہلی دوسری کو مستلزم نہیں ۔ اس کے کانوں پر مہر ہے نفع دینے والی شرعی بات سنتا ہی نہیں ۔ اس کے دل پر مہر ہے ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کوئی دلیل اسے دکھتی ہی نہیں بھلا اب اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے ؟ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے؟ جیسے فرمایا آیت (من یضلل اللہ فلا ھادی لہ ویذرھم فی طغیانھم یعمھون ) جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں ۔