وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ ﴿27﴾
‏ [جالندھری]‏ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی اس روز اہل باطل خسارے میں پڑ جائیں گے ‏
تفسیر ابن كثیر
اس دن ہر شخص گھٹنوں کے بل گرا ہو گا
اب سے لے کر ہمیشہ تک اور آج سے پہلے بھی تمام آسمانوں کا کل زمینوں کا مالک بادشاہ سلطان اللہ تعالٰی ہی ہے ۔ اللہ کے اور اس کی کتابوں کے اور اس کے رسولوں کے منکر قیامت کے روز بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ حضرت سفیان ثوری جب مدینے شریف میں تشریف لائے تو آپ نے سنا کہ معافری ایک ظریف شخص ہیں لوگوں کو اپنے کلام سے ہنسایا کرتے ہیں تو آپ نے انہیں نصیحت کی اور فرمایا کیوں جناب کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن آئے گا جس میں باطل والے خسارے میں پڑیں گے ۔ اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور حضرت معافری مرتے دم تک اس نصیحت کو نہ بھولے (ابن ابی حاتم ) وہ دن ایسا ہولناک اور سخت تر ہوگا کہ ہر شخص گھٹنوں پر گر جائے گا ۔ یہاں تک کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور روح اللہ حضرت عیسیٰ بھی ۔ ان کی زبان سے بھی اس وقت (نفسی نفسی نفسی) نکلے گا ۔ صاف کہدیں گے کہ اللہ آج ہم تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے صرف اپنی سلامتی چاہتے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ آج میں اپنی والدہ کے لئے بھی تجھ سے کچھ عرض نہیں کرتا بس مجھے بچا لے ۔ گو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہر گروہ جداگانہ الگ الگ ہو گا لیکن اس سے اولیٰ اور بہتر وہی تفسیر ہے جو ہم نے کی یعنی ہر ایک اپنے زانو پر گرا ہوا ہوگا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گویا کہ میں تمہیں جہنم کے پاس زانو پر جھکے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اور مرفوع حدیث میں جس میں صور وغیرہ کا بیان ہے یہ بھی ہے کہ پھر لوگ جدا جدا کر دئیے جائیں گے اور تمام امتیں زانو پر جھکیں پڑیں گی یہی اللہ کا فرمان ہے آیت (وتری کل امتہ جاثیتہ) الخ ، اس میں دونوں حالتیں جمع کر دی ہیں پس دراصل دونوں تفسیروں میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں واللہ اعلم ، پھر فرمایا ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا ۔ جیسے ارشاد ہے (ووضع الکتاب وجائ بالنبین ) الخ ، نامہ اعمال رکھا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا ۔ آج تمہیں تمہارے ہر ہر عمل کا بدلہ بھرپور دیا جائے گا جیسے فرمان ہے آیت (ینبؤا الانسان یومئذ بما قدم واخر) الخ ، انسان کو ہر اس چیز سے باخبر کر دیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجی اور پیچھے چھوڑی اس کے اگلے پچھلے تمام اعمال ہوں گے بلکہ خود انسان اپنے حال پر خوب مطلع ہو جائے گا گو اپنے تمام تر حیلے سامنے لا ڈالے ۔ یہ اعمال نامہ جو ہمارے حکم سے ہمارے امین اور سچے فرشتوں نے لکھا ہے وہ تمہارے اعمال کو تمہارے سامنے پیش کر دینے کے لئے کافی وافی ہیں جیسے ارشاد ہے (ووضع الکتاب فتری المجرمین مشفقین مما فیہ) الخ ، یعنی نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا تو تو دیکھے گا کہ گنہگار اس سے خوفزدہ ہو جائیں گے اور کہیں گے ہائے ہماری کم بختی اور عمل نامے کی تو یہ صفت ہے کہ کسی چھوٹے بڑے عمل کو قلم بند کئے بغیر چھوڑا ہی نہیں ہے جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب سامنے حاضر پا لیں گے ۔ تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے محافظ فرشتوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ تمہارے اعمال لکھتے رہا کریں ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کہ فرشتے بندوں کے اعمال لکھتے ہیں پھر انہیں لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں آسمان کے دیوان عمل کے رشتے اس نامہ اعمال کو لوح محفوظ میں لکھے ہوئے اعمال سے ملاتے ہیں جو ہر رات اس کی مقدار کے مطابق ان پر ظاہر ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنی مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہی لکھا ہے تو ایک حرف کی کمی زیادتی نہیں پاتے پھر آپ نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی ۔