أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى ۚ بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿33﴾
‏ [جالندھری]‏ کیا انہوں نے نہیں سمجھا کہ جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور انکے پیدا کرنے سے تھکا نہیں وہ اس (بات) پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ہاں ہاں وہ ہرچیز پر قادر ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے جو مرنے کے بعد جینے کے منکر ہیں اور قیامت کے دن جسموں سمیت جی اٹھنے کو محال جانتے ہیں یہ نہیں دیکھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کل آسمانوں اور تمام زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش نے اسے کچھ نہ تھکایا بلکہ صرف ہو جا کے کہنے سے ہی ہو گئیں کون تھا جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا یا مخالفت کرتا بلکہ حکم برداری سے راضی خوشی ڈرے دبتے سب موجود ہو گئے ، کیا اتنی کامل قدرت و قوت والا مردوں کے زندہ کر دینے کی سکت نہیں رکھتا ؟ چنانچہ دوسری آیت میں ہے آیت (لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثر الناس لا یعلمون ) یعنی انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بھاری اور مشکل اور بہت بڑی اہم پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےسمجھ ہیں ۔ جب زمین و آسمان کو اس نے پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کر دینا خواہ ابتدًا ہو خواہ دوبارہ ہو اس پر کیا مشکل ہے ؟ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ ہاں وہ ہر شے پر قادر ہے اور انہی میں سے موت کے بعد زندہ کرتا ہے کہ اس پر بھی وہ صحیح طور پر قادر ہے پھر اللہ جل و علا کافروں کو دھمکاتا ہے کہ قیامت والے دن جہنم میں ڈالے جائیں گے اس سے پہلے جہنم کے کنارے پر انہیں کھڑا کر کے ایک مرتبہ پھر لاجواب اور بےحجت کیا جائے گا اور کہا جائے گا کیوں جی ہمارے وعدے اور یہ دوزخ کے عذاب اب تو صحیح نکلے یا اب بھی شک و شبہ اور انکار و تکذیب ہے ؟ یہ جادو تو نہیں تمہاری آنکھیں تو اندھی نہیں ہوگئیں ؟ جو دیکھ رہے ہو صحیح دیکھ رہے ہو یا درحقیقت صحیح نہیں ؟ اب سوائے اقرار کے کچھ نہ بن پڑے گا جواب دیں گے کہ ہاں ہاں سب حق ہے جو کہا گیا تھا وہی نکلا قسم اللہ کی اب ہمیں رتی برابر بھی شک نہیں اللہ فرمائے گا اب دو گھڑی پہلے کے کفر کا مزہ چکھو پھر اللہ تعالٰی اپنے رسول کو تسلی دے رہا ہے کہ آپ کی قوم نے اگر آپ کو جھٹلایا آپ کی قدر نہ کی آپ کی مخالفت کی ایذاء رسانی کے درپے ہوئے تو یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہے ؟ اگلے اولوالعزم پیغمبروں کو یاد کرو کہ کیسی کیسی ایذائیں ، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کن کن زبردست مخالفوں کی مخالفت کو صبر سے برداشت کیا ان رسولوں کے نام یہ ہیں نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور خاتم الانبیاء اللھم صلی علیھم اجمعین ۔ انبیاء کے بیان میں ان کے نام خصوصیت سے سورہ احزاب اور سورہ شوریٰ میں مذکور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولوالعزم رسول سے مراد سب پیغمبر ہوں تو (من الرسل ) کا (من) بیان جنس کے لئے ہو گا واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے پھر روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے اور پھر روزہ رکھا پھر فرمانے لگے عائشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق تو دنیا ہے ہی نہیں ۔ عائشہ دنیا کی بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور دنیا کی خواہش کی چیزوں سے اپنے تئیں بچائے رکھنے کا حکم اولوالعزم رسول کئے گئے اور وہی تکلیف مجھے بھی دی گئی ہے جو ان عالی ہمت رسولوں کو دی گئی تھی ۔ قسم اللہ کی میں بھی انہی کی طرح اپنی طاقت بھر صبر و سہار سے ہی کام لوں گا اللہ کی قوت کے بھروسے سے پر یہ بات زبان سے نکال رہا ہوں ۔ پھر فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ عذابوں میں مبتلا کئے جائیں اس کی جلدی نہ کرو ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (فذرنی والمکذبین ) الخ، یعنی کافروں کو مہلت دو ، انہیں تھوڑی دیر چھوڑ دو پھر فرماتا ہے جس دن یہ ان چیزوں کا مشاہدہ کرلیں گے جن کے وعدے آج دئیے جاتے ہیں اس دن انہیں معلوم ہونے لگے گا کہ دنیا میں صرف دن کا کچھ ہی حصہ گذارا ہے اور آیت میں ہے آیت (کانھم یوم یرونھا لم یلبثوا الاعشیۃ او ضحاھا) یعنی جس دن یہ قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ گویا دنیا میں صرف ایک صبح یا ایک شام ہی گذاری تھی (ویوم یحشرھم کان لم یلبثوا الا ساعتہ من النھار) یعنی جس دن ہم انہیں جمع کریں گے تو یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ گویا دن کی ایک ساعت ہی دنیا میں رہے تھے پھر فرمایا پہنچا دینا ہے ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دنیا کا ٹھہرنا صرف ہماری طرف سے ہماری باتوں کے پہنچا دینے کے لئے تھا دوسرے یہ کہ یہ قرآن صرف پہنچا دینے کیلئے ہے یہ کھلی تبلیغ ہے پھر فرماتا ہے سوائے فاسقوں کے اور کسی کو ہلاکی نہیں ۔ یہ اللہ جل و علا کا عدل ہے کہ جو خود ہلاک ہوا اسے ہی وہ ہلاک کرتا ہے عذاب اسی کو ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں اپنے لئے عذاب مہیا کرے اور اپنے آپ کو مستحق عذاب کر دے واللہ اعلم ۔