الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ جن لوگوں نے کفر کیا اور (اوروں کو) خدا کے راستے سے روکا خدا نے انکے اعمال برباد کر دئیے ‏
تفسیر ابن كثیر
ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالٰی نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں ، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت وبرباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے ۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے ۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے ۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا(یھدیکم اللہ ویصلح بالکم) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کر دینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالٰی لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے ۔