وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَى لَهُمْ ﴿20﴾
‏ [جالندھری]‏ اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھنے لگیں جس طرح کسی پر موت کی بیہوشی (طاری) ہو رہی ہو تو ان کے لئے خرابی ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے
اللہ تعالٰی خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالٰی جہاد کو فرض کر دیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں ، جیسے اور آیت میں ہے آیت (الم تر الی الذین قیل لھم کفوا ایدیکم ) یعنی کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کر دیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب آن آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گبھراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا ۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آجاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے پھر فرمایا قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے پس فرمایا ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں ۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے ۔ بلکہ اللہ تعالٰی نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے ، صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں کام کاج میں ، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا ۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالٰی اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو (فھل عسیتم ) الخ ، اور سند سے ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ وہ وہ صلہ رحمی کرے ۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے ، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا ۔ بخاری وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے ۔ مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی اس کی رانیں ہوں مثل ہرن کی رانوں کے وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا ۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالٰی خود توڑ دیتا ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیمار پرسی کے لئے لوگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے تم نے صلہ رحمی کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کر چکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں عملی کام گھٹ جائیں ، زبانی میل جول ہو ، دلی بغض و عداوت ہو ، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر دی جاتی ہیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ واللہ اعلم ۔