أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ ﴿29﴾
‏ [جالندھری]‏ کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو
یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں ؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالٰی ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بد باطنی سے بچ سکے ۔ ان کے بہت سے احوال سورہ براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی فاضحہ رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی۔ (اضغان ) جمے ہے (ضغن) کی ضغن کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو ۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ ۔ لیکن اللہ تعالٰی نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں ، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں پہچان لو گے ۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالٰی اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کر دیتا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالٰی اسے اس پر عیاں کر دیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو ۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کر دیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی (تعیین ) آچکی ہے ۔ مسند احمد میں ہے "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہو جائے ۔ اے فلاں کھڑا ہو جا ، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لئے ۔ پھر فرمایا "تم میں "یا "تم میں سے "منافق ہیں ، پس اللہ سے ڈرو ۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے حضرت عمر گذرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا ۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا اللہ تجھے غارت کرے ۔ پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کرلیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں ؟ اور صبر کرنیوالے کون ہیں ؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے ۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لئے حضرت ابن عباس اس جیسے مواقع پر (لنعلم ) کے معنی کرتے تھے (لنری) یعنی تاکہ ہم دیکھ لیں ۔