إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ ﴿32﴾
‏ [جالندھری]‏ جن لوگوں کو سیدھا راستہ معلوم ہو گیا (اور) پھر بھی انہوں نے کفر کیا اور (لوگوں) کو خدا کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی وہ خدا کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے اور خدا ان کا سب کیا کرایا اکارت کر دے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
نیکیوں کو غارت کرنے والی برائیوں کی نشاندہی
اللہ سبحانہ وتعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفر کرنے والے راہ اللہ کی بندش کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہ ہونے والے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں کل قیامت والے دن یہ خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی بھی ان کے پاس نہ ہو گی ۔ جس طرح نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح اس کے بدترین جرم و گناہ ان کی نیکیاں برباد کر دیں گے ۔ امام محمد بن نصر مروزی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الصلوۃ میں حدیث لائے ہیں کہ صحابہ کا خیال تھا کہ (لا الہ الا اللہ) کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جیسے کہ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اس پر آیت (اطیعوا اللہ ) الخ ، اتری اب اصحاب رسول اس سے ڈرنے لگے کہ گناہ نیکیوں کو باطل نہ کر دیں ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ صحابہ کرام کا خیال تھا کہ ہر نیکی بالیقین مقبول ہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو کہنے لگے کہ ہمارے اعمال برباد کرنے والی چیز کبیرہ گناہ اور بدکاریاں کرنے والے پر انہیں خوف رہتا تھا اور ان سے بچنے والے کے لئے امید رہتی تھی ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی اپنے با ایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ سے کفر کرنے والے راہ اللہ سے روکنے والے اور کفر ہی میں مرنے والے اللہ کی بخشش سے محروم ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا اس کے بعد جناب باری عز اسمہ فرماتا ہے کہ اے میرے مومن بندو تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں زور وغلبہ میں تعداد و اسباب میں تم قوی ہو ۔ ہاں جبکہ کافر قوت میں ، تعداد میں ، اسباب میں تم سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بیشک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے جیسے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر معاہدہ کر لیا پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوش خبری سناتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس وجہ سے نصرت و فتح تمہاری ہی ہے تم یقین مانو کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر و ثواب تمہیں عنایت فرمائے گا ۔ واللہ اعلم ۔