إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ ﴿36﴾ [جالندھری] دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور پرہیز گاری کرو گے تو وہ تم کو تمہارا اجر دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا
تفسیر ابن كثیر
سخاوت کے فائدے اور بخل کے نقصانات
دنیا کی حقارت اور اس کی قلت و ذلت بیان ہو رہی ہے کہ اس سے سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ حاصل نہیں ہاں جو کام اللہ کے لئے کئے جائیں وہ باقی رہ جاتے ہیں پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ذات بےپرواہ ہے تمہارے بھلے کام تمہارے ہی نفع کیلئے ہیں وہ تمہارے مالوں کا بھوکا نہیں اس نے تمہیں جو خیرات کا حکم دیا ہے وہ صرف اس لئے کہ تمہارے ہی غرباء ، فقراء کی پرورش ہو اور پھر تم دار آخرت میں مستحق ثواب بنو ۔ پھر انسان کے بخل اور بخل کے بعد دلی کینے کے ظاہر ہونے کا حال بیان فرمایا فال کے نکالنے میں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ مال انسان کو محبوب ہوتا ہے اور اس کا نکالنا اس پر گراں گذرتا ہے ۔ پھر بخیلوں کی بخیلی کے وبال کا ذکر ہو رہا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مال کو روکنا دراصل اپنا ہی نقصان کرنا ہے کیونکہ بخیلی کا وبال اسی پر پڑے گا ۔ صدقے کی فضیلت اور اسکے اجر سے محروم بھی رہے گا ۔ اللہ سب سے غنی ہے اور سب اس کے در کے بھکاری ہیں ۔ غناء اللہ تعالٰی کا وصف لازم ہے اور احتیاج مخلوق کا وصف لازم ہے ۔ نہ یہ اس سے کبھی الگ ہوں نہ وہ اس سے پھر فرماتا ہے اگر تم اس کی اطاعت سے روگرداں ہوگئے اس کی شریعت کی تابعداری چھوڑ دی تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور قوم لائے گا جو تم جیسی نہ ہوگی بلکہ وہ سننے اور ماننے والے حکم بردار ، نافرمانیوں سے بیزار ہوں گے ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے بدلے لائے جاتے اور ہم جیسے نہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی کے شانے پر رکھ کر فرمایا یہ اور ان کی قوم اگر دین ثریا کے پاس بھی ہوتا تو اسے فارس کے لوگ لے آتے ، اس کے ایک راوی مسلم بن خالد زنجی کے بارے میں بعض ائمہ جرح تعدیل نے کچھ کلام کیا ہے واللہ اعلم ۔ الحمد للہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے سورہ قتال کی تفسیر ختم ہوئی ۔