قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِنْ تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿16﴾
‏ [جالندھری]‏ جو اعراب پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم جلد ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے اگر تم حکم مانو گے تو خدا تم کو اچھا بدلا دے گا اور اگر منہ پھیر لو گے جیسے پہلی دفعہ پھیرا تھا تو وہ تم کو بری تکلیف کی سزا دے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
وہ سخت لڑاکا قوم جن سے لڑنے کی طرف یہ بلائے جائیں گے کونسی قوم ہے ؟ اس میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ہوازن ہے دوسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ثقیف ہے تیسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ بنو حنیف ہے چوتھے یہ کہ اس سے مراد اہل فارس ہیں پانچویں یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں چھٹے یہ کہ اس سے مراد بت پرست ہیں بعض فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم ایک ایسی قوم سے نہ لڑو جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور ناک بیٹھی ہوئی ہو گی ان کے منہ مثل تہ بہ تہ ڈھالوں کے ہوں گے حضرت سفیان فرماتے ہیں اس سے مراد ترک ہیں ایک حدیث میں ہے کہ تمہیں ایک قوم سے جہاد کرنا پڑے گا جن کی جوتیاں بال دار ہوں گی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں پھر فرماتا ہے کہ ان سے جہاد قتال تم پر مشروع کر دیا گیا ہے اور یہ حکم باقی ہی رہے گا اللہ تعالٰی ان پر تمہاری مدد کرے گا یا یہ کہ وہ خود بخود بغیر لڑے بھڑے دین اسلام قبول کرلیں گے پھر ارشاد ہوتا ہے اگر تم مان لو گے اور جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہو جاؤ گے اور حکم کی بجا آوری کرو گے تو تمہیں بہت ساری نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے وہی کیا جو حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا یعنی بزدلی سے بیٹھے رہے جہاد میں شرکت نہ کی احکام کی تعمیل سے جی چرایا تو تمہیں المناک عذاب ہو گا۔ پھر جہاد کے ترک کرنے کے جو صحیح عذر ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے پس دو عذر تو وہ بیان فرمائے جو لازمی ہیں یعنی اندھا پن اور لنگڑا پن اور ایک عذر وہ بیان فرمایا جو عارضی ہے جیسے بیماری کہ چند دن رہی پھر چلی گئی ۔ پس یہ بھی اپنی بیماری کے زمانہ میں معذور ہیں ہاں تندرست ہونے کے بعد یہ معذور نہیں پھر جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار جنتی ہے اور جو جہاد سے بےرغبتی کرے اور دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہو جائے ، معاش کے پیچھے معاد کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت کی دکھ مار ہے ۔