لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿27﴾
‏ [جالندھری]‏ بے شک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا کہ تم خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن و امان سے داخل ہو گے اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے جو بات تم نہیں جانتے تھے اس کو معلوم تھی تو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرا دی ‏
تفسیر ابن كثیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا ۔ آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب سے مدینہ شریف میں ہی کر دیا تھا حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے ۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ پر نہایت شاق گذرا ۔ چنانچہ حضرت عمر نے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا بھی کہ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف سے مشرف ہوں گے آپ نے فرمایا یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہو گا ؟ حضرت عمر نے فرمایا ہاں یہ تو نہیں فرمایا تھا آپ نے فرمایا پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقینا کرو گے ۔ پھر حضرت صدیق سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا ۔ اس آیت میں جو ان شاء اللہ ہے یہ استثناء کے لئے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لئے ہے اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے ۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضرت اور کتروانے والوں پر بھی ۔ آپ نے دوبارہ بھی یہی فرمایا پھر لوگوں نے وہی کہا آخر تیسری یا چوتھی دفعہ میں آپ نے کتروانے والوں کے لئے بھی رحم کی دعا کی ۔ پھر فرمایا بےخوف ہو کر یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن و امان سے ہو گے اور مکہ کا قیام بھی بےخوفی کا ہو گا چنانچہ عمرۃ القضاء میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ ٧ ہجری میں ہوا تھا ۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے ذی الحجہ اور محرم تو مدینہ شریف میں قیام رہا صفر میں خیبر کی طرف گئے اس کا کچھ حصہ تو از روئے جنگ فتح ہوا اور کچھ حصہ ازروئے صلح مسخر ہوا یہ بہت بڑا علاقہ تھا اس میں کھجوروں کے باغات اور کھیتیاں بکثرت تھیں ، یہیں کے یہودیوں کو آپ نے بطور خادم یہاں رکھ کر ان سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ باغوں اور کھیتیوں کی حفاظت اور خدمت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ دے دیا کریں ، خیبر کی تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان ہی صحابہ میں کی جو حدیبیہ میں موجود تھے ان کے سوا کسی اور کو اس جنگ میں آپ نے حصہ دار نہیں بنایا، سوائے ان لوگوں کے جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے جو حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ سب اس فتح خیبر میں بھی ساتھ تھے ۔ حضرت ابو دجانہ ، سماک بن خرشہ کے سوا جیسے کہ اس کا پورا بیان اپنی جگہ ہے یہاں سے آپ سالم و غنیمت لئے ہوئے واپس تشریف لائے اور ماہ ذوالقعدہ سنہ ٧ ہجری میں مکہ کی طرف باارادہ عمرہ اہل حدیبیہ کو ساتھ لے کر آپ روانہ ہوئے ، ذوالحلفیہ سے احرام باندھا قربانی کے لئے ساٹھ اونٹ ساتھ لئے اور لبیک پکارتے ہوئے ظہران میں پہنچے جہاں سے کعبہ کے بت دکھائی دیتے تھے تو آپ نے تمام نیزے بھالے تیر کمان بطن یا جج میں بھیج دئیے، مطابق شرط کے صرف تلواریں پاس رکھ لیں اور وہ بھی میان میں تھیں ابھی آپ راستے میں ہی تھے جو قریش کا بھیجا ہوا آدمی مکرز بن حفص آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی عادت تو توڑنے کی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ تیر اور نیزے لے کر آرہے ہیں آپ نے فرمایا نہیں تو ہم نے وہ سب یاجج بھیج دیے ہیں اس نے کہا یہی ہمیں آپ کی ذات سے امید تھی آپ ہمیشہ سے بھلائی اور نیکی اور وفاداری ہی کرنے والے ہیں سرداران کفار تو بوجہ غیظ وغضب اور رنج وغم کے شہر سے باہر چلے گئے کیونکہ وہ تو آپ کو اور آپ کے اصحاب کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے اور لوگ جو مکہ میں رہ گئے تھے وہ مرد عورت بچے تمام راستوں پر اور کوٹھوں پر اور چھتوں پر کھڑے ہوگئے اور ایک استعجاب کی نظر سے اس مخلص گروہ کو اس پاک لشکر کو اس اللہ کی فوج کو دیکھ رہے تھے آپ نے قربانی کے جانور ذی طوٰی میں بھیج دئیے تھے خود آپ اپنی مشہور و معروف سواری اونٹنی قصوا پر سوار تھے آگے آگے آپ کے اصحاب تھے جو برابر لبیک پکار رہے تھے حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے 
باسم الذی لا دین الا دینہ بسم الذی محمد رسولہ
خلوا بنی الکفار عن سبیلہ الیوم نضربکم علی تاویلہ
کما ضربنا کم علی تنزیلہ ضربا یزیل الھام عن مقیلہ 
ویذھل الخلیل عن خلیلہ قد انزل الرحمن فی تنزیلہ 
فی صحف تتلی علی رسولہ بان خیر القتل فی سبیلہ
یارب انی مومن بقیلہ
یعنی اس اللہ عزوجل کے نام جس کے دین کے سوا اور کوئی دین قابل قبول نہیں ۔ اس اللہ کے نام سے جس کے رسول حضرت محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اے کافروں کے بچو ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ جاؤ آج ہم تمہیں آپ کے لوٹنے پر بھی ویسا ہی ماریں گے جیسا آپ کے آنے پر مارا تھا وہ مار جو دماغ کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دے اور دوست کو دوست سے بھلا دے ۔ اللہ تعالٰی رحم والے نے اپنی وحی میں نازل فرمایا ہے جو ان صحیفوں میں محفوظ ہے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کئے جاتے ہیں کہ سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے جو اس کی راہ میں ہو ۔ اے میرے پروردگار میں اس بات پر ایمان لا چکا ہوں ۔ بعض روایتوں میں الفاظ میں کچھ ہیر پھیر بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس عمرے کے سفر میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم (مر الظہران ) میں پہنچے تو صحابہ نے سنا کہ اہل مکہ کہتے ہیں یہ لوگ بوجہ لاغری اور کمزوری کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے یہ سن کر صحابہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی سواریوں کے چند جانور ذبح کرلیں ان کا گوشت کھائیں اور شوربا پئیں اور تازہ دم ہو کر مکہ میں جائیں آپ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو تمہارے پاس جو کھانا ہو اسے جمع کرو چنانچہ جمع کیا دستر خوان بچھایا اور کھانے بیٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھا پی لیا اور توشے دان بھر لئے ۔ آپ مکہ شریف آئے سیدھے بیت اللہ گئے قریشی حطیم کی طرف بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چادر کے پلے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لئے اور اصحاب سے فرمایا یہ لوگ تم میں سستی اور لاغری محسوس نہ کریں ، اب آپ نے رکن کو بوسہ دے کر دوڑنے کی سی چال سے طواف شروع کیا جب رکن یمانی کے پاس پہنچے جہاں قریش کی نظریں نہیں پڑتی تھیں تو وہاں سے آہستہ آہستہ چل کر حجر اسود تک پہنچے ، قریش کہنے لگے تم لوگ تو ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہو گویا چلنا تمہیں پسند ہی نہیں تین مرتبہ تو آپ اسی طرح ہلکی دوڑ کی سی چال حجر اسود سے رکن یمانی تک چلتے رہے تین پھیرے اس طرح کئے چنانچہ یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اصحاب رسول کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہوگئے تھے ، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آرہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا اللہ تعالٰی نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی ۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے ؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ شریف پہنچ گئے تھے اور روایت میں ہے کہ مشرکین اس وقت قعیقعان کی طرف تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صفا مروہ کی طرف سعی کرنا بھی مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لئے تھا ، حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں اس دن ہم آپ پر چھائے ہوئے تھے اس لئے کہ کوئی مشرک یا کوئی ناسمجھ آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچا سکے ، بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لئے نکلے لیکن کفار قریش نے راستہ روک لیا اور آپ کو بیت اللہ شریف تک نہ جانے دیا آپ نے وہیں قربانیاں کیں اور وہیں یعنی حدیبیہ میں سر منڈوا لیا اور ان سے صلح کر لی جس میں یہ طے ہوا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں گے سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں نہیں آئیں گے اور وہاں اتنی ہی مدت ٹھہریں گے جتنی اہل مکہ چاہیں پس اگلے سال آپ اسی طرح آئے تین دن تک ٹھہرے پھر مشرکین نے کہا اب آپ چلے جائیں چنانچہ آپ وہاں سے واپس ہوئے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اہل مکہ حائل ہوئے تو آپ نے ان سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف تین دن ہی مکہ میں ٹھہریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تو اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تو ہرگز نہ روکتے بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھئے ، آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں پھر آپ نے حضرت علی بن ابو طالب سے فرمایا لفظ یا رسول اللہ کو مٹا دو۔ حضرت علی نے فرمایا نہیں نہیں قسم اللہ کی میں اسے ہرگز نہ مٹاؤں گا چنانچہ آپ نے اس صلح نامہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باوجود اچھی طرح لکھنا نہ جاننے کے لکھا ، کہ یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہ ہوں گے صرف تلوار ہو گی اور وہ بھی میان میں اور یہ کہ اہل مکہ میں سے جو آپ کے ساتھ جانا چاہے گا اسے آپ اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور یہ کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو مکے میں رہنے کے ارادے سے ٹھہر جانا چاہے گا آپ اسے روکیں گے نہیں پس جب آپ آئے اور وقت مقررہ گذر چکا تو مشرکین حضرت علی کے پاس آئے اور کہا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہئے کہ اب وقت گذر چکا تشریف لے جائیں چنانچہ آپ نے کوچ کر دیا ۔ حضرت حمزہ کی صاحبزادی چچا چچا کہہ کر آپ کے پیچھے ہو لیں حضرت علی نے انہیں لے لیا اور انگلی تھام کر حضرت فاطمہ کے پاس لے گئے اور فرمایا اپنے چچا کی لڑکی کو اچھی طرح رکھو حضرت زہرا نے بڑی خوشی سے بچی کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔ اب حضرت علی اور حضرت زید اور حضرت جعفر میں جھگڑا ہونے لگا حضرت علی فرماتے تھے انہیں میں لے آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہیں حضرت جعفر فرماتے تھے میری چچا زاد بہن ہے اور ان کی خالہ میرے گھر میں ہیں ۔ حضرت زید فرماتے تھے میرے بھائی کی لڑکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ یوں کیا کہ لڑکی کو تو ان کی خالہ کو سونپا اور فرمایا خالہ قائم مقام ماں کے ہے حضرت علی سے فرمایا تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ۔ حضرت جعفر سے فرمایا کہ تو خلق اور خلق میں مجھ سے پوری مشابہت رکھتا ہے ۔ حضرت زید سے فرمایا تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے ۔ حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ حضرت حمزہ کی لڑکی سے نکاح کیوں نہ کرلیں ؟ آپ نے فرمایا وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہیں پھر فرماتا ہے اللہ تعالٰی جس خیر و مصلحت کو جانتا تھا اور جسے تم نہیں جانتے تھے اس بنا پر تمہیں اس سال مکہ میں نہ جانے دیا اور اگلے سال جانے دیا اور اس جانے سے پہلے ہی جس کا وعدہ خواب کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تمہیں فتح قریب عنایت فرمائی۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو تمہارے دشمنوں کے درمیان ہوئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی مومنوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دشمنوں پر اور تمام دشمنوں پر فتح دے گا اس نے آپ کو علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ بھیجا ہے ، شریعت میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں علم اور عمل پس علم شرعی صحیح علم ہے اور عمل شرعی مقبولیت والا عمل ہے اس کے اخبار سچے ، اس کے احکام سراسر عدل و حق والے ۔ چاہتا یہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے دین ہیں عربوں میں ، عجمیوں میں ، مسلمین میں ، مشرکین میں ، ان سب پر اس اپنے دین کو غالب اور ظاہر کرے اللہ کافی گواہ ہے اس بات پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ہی آپ کا مددگار ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔