إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿4﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
آداب خطاب 
ان آیتوں میں اللہ تعالٰی ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ چاہیے تھا کہ آپ کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے ۔ نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے ۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی پھر حکم دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ یہ آیت حضرت اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کا نام لے کر پکارا یا محمد ! یا محمد! آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے کہا سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے آپ نے فرمایا ایسی ذات محض اللہ تعالٰی کی ہی ہے ۔ بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ جب حضرت سعید بن جبیر سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت (یمنون علیک ان اسلموا) پڑھ دیتے وہ کہتے کہ ہم اسلام لائے اور بنو اسد نے آپ کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے اس پر یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا اللہ تعالٰی نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالٰی نے تیری بات سچی کر دی ، (ابن جریر)