يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿13﴾
‏ [جالندھری]‏ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
نسل انسانی کا نکتہ آغاز
اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے یعنی حضرت آدم سے ان ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی ۔ شعوب قبائل سے عام ہے مثال کے طور پر عرب تو شعوب میں داخل ہے پھر قریش غیر قریش پھر ان کی تقسیم میں یہ سب قبائل داخل ہے بعض کہتے ہیں شعوب سے مراد عجمی لوگ اور قبائل سے مراد عرب جماعتیں ۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کو اسباط کہا گیا ہے میں نے ان تمام باتوں کو ایک علیحدہ مقدمہ میں لکھ دیا ہے جسے میں نے ابو عمر بن عبداللہ کی کتاب الانباہ اور کتاب القصد والامم فی معرفۃ انساب العرب والعجم سے جمع کیا ہے مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں قبیلہ حمیر اپنے حلفیوں کی طرف منسوب ہوتا تھا اور حجازی عرب اپنے قبیلوں کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کر سکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے پھر فرمایا حسب نسب اللہ کے ہاں نہیں چلتا وہاں تو فضیلت ، تقویٰ اور پرہیز گاری سے ملتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کر لیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالٰی کی پوری حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو ۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی کوئی چیز یا کوئی شخص کبھی بھلا نہیں لگتا تھا مگر تقوے والے انسان کے اللہ تمہیں جانتا ہے اور تمہارے کاموں سے بھی خبردار ہے ہدایت کے لائق جو ہیں انہیں راہ راست دکھاتا ہے اور جو اس لائق نہیں وہ بےراہ ہو رہے ہیں ۔ رحم اور عذاب اس کی مشیت پر موقوف ہیں فضیلت اس کے ہاتھ ہے جسے چاہے جس پر چاہے بزرگی عطا فرمائے یہ تمام امور اس کے علم اور اس کی خبر پر مبنی ہیں ۔ اس آیت کریمہ اور ان احادیث شریفہ سے استدلال کر کے علماء نے فرمایا ہے کہ نکاح میں قومیت اور حسب نسب کی شرط نہیں سوائے دین کے اور کوئی شرط معتبر نہیں ۔ دوسروں نے کہا ہے کہ ہم نسبی اور قومیت بھی شرط ہے اور ان کے دلائل ان کے سوا اور ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور ہم بھی انہیں کتاب الاحکام میں ذکر کر چکے ہیں فالحمد اللہ ۔ طبرانی میں حضرت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے بنو ہاشم میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ نسبت اور تمام لوگوں کے بہت زیادہ قریب ہوں پس فرمایا تیرے سوا میں بھی بہت زیادہ قریب ہوں ان سے بہ نسبت تیرے جو تجھے آپ سے نسبت ہے ۔