فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ ﴿29﴾
‏ [جالندھری]‏ تو (اے پیغمبر!) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے ‏
تفسیر ابن كثیر
کاہن کی پہچان 
اللہ تعالٰی اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ اللہ کی رسالت اللہ کے بندوں تک پہنچاتے رہیں ساتھ ہی بدکاروں نے جو بہتان آپ پر باندھ رکھے تھے ان سے آپ کی صفائی کرتا ہے کاہن اسے کہتے ہیں جس کے پاس کبھی کبھی کوئی خبر جن پہنچا دیتا ہے تو ارشاد ہوا کہ دین حق کی تبلیغ کیجئے ۔ الحمد اللہ آپ نہ تو جنات والے ہیں نہ جنوں والے ۔ پھر کافروں کا قول نقل فرماتا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک شاعر ہیں انہیں کہنے دو جو کہہ رہے ہیں ان کے انتقال کے بعد ان کی سی کون کہے گا ؟ ان کا یہ دین ان کے ساتھ ہی فنا ہو جائے گا پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب دینے کو فرماتا ہے کہ اچھا ادھر تم انتظار کرتے ہو ادھر میں بھی منتظر ہوں دنیا دیکھ لے گی کہ انجام کار غلبہ اور غیر فانی کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے ؟ دارالندوہ میں قریش کا مشورہ ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی مثل اور شاعروں کے ایک شعر گو ہیں انہیں قید کر لو وہیں یہ ہلاک ہو جائیں گے جس طرح زہیر اور نابغہ شاعروں کا حشر ہوا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پھر فرماتا ہے کیا ان کی دانائی انہیں یہی سمجھاتی ہے کہ باوجود جاننے کے پھر بھی تیری نسبت غلط افواہیں اڑائیں اور بہتان بازی کریں حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے سرکش گمراہ اور عناد رکھنے والے لوگ ہیں دشمنی میں آکر واقعات سے چشم پوشی کر کے آپ کو مفت میں برا بھلا کہتے ہیں کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خود آپ بنا لیا ہے ؟ فی الواقع ایسا تو نہیں لیکن ان کا کفر ان کے منہ سے یہ غلط اور جھوٹ بات نکلوا رہا ہے اگر یہ سچے ہیں تو پھر یہ خود بھی مل جل کر ہی ایک ایسی بات بنا کر دکھا دیں یہ کفار قریش تو کیا ؟ اگر ان کیساتھ روئے زمین کے جنات وانسان مل جائیں جب بھی اس قرآن کی نظیر سے وہ سب عاجز رہیں گے اور پورا قرآن تو بڑی چیز ہے اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی قیامت تک بنا کر نہیں لا سکتے ۔