إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿18﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی اور خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دیتے ہیں انکو دو چند ادا کیا جائے گا اور ان کے لئے عزت کا صلہ ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
صدقہ و خیرات کرنے والوں کے لئے اجر و ثواب
فقیر مسکین محتاجوں اور حاجت مندوں کو خالص اللہ کی مرضی کی جستجو میں جو لوگ اپنے حلال مال نیک نیتی سے اللہ کی راہ میں صدقہ دیتے ہیں ان کے بدلے بہت کچھ بڑھا چڑھا کر اللہ تعالٰی انہیں عطا فرمائے گا۔ دس دس گنے اور اس سے بھی زیادہ سات سات سو تک بلکہ اس سے بھی سوا ان کے ثواب بےحساب ہیں ان کے اجر بہت بڑے ہیں۔ اللہ رسول پر ایمان رکھنے والے ہی صدیق و شہید ہیں ، ان دونوں اوصاف کے مستحق صرف با ایمان لوگ ہیں، بعض حضرات نے الشہداء کو الگ جملہ مانا ہے، غرض تین قسمیں ہوئیں مصدقین صدیقین شہداء جیسے اور روایت میں ہے اللہ اور اس کے رسول کا اطاعت گذار انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہے جو نبی، صدیق، شہید اور صالح لوگ ہیں، پس صدیق و شہید میں یہاں بھی فرق کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو قسم کے لوگ ہیں، صدیق کا درجہ شہید سے یقینا بڑا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جنتی لوگ اپنے سے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو، لوگوں نے کہا یہ درجے تو صرف انبیاء کے ہوں گے آپ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی (بخاری مسلم) ایک غریب حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہید اور صدیق دونوں وصف اس آیت میں اسی مومن کے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے مومن شہید ہیں، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ حضرت عمرو بن میمون کا قول ہے یہ دونوں ان دونوں انگلیوں کی طرح قیامت کے دن آئیں گے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہوں گی جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی پھریں گی اور رات کو قندیلوں میں سہارا لیں گی ان کے رب نے ان کی طرف ایک بار دیکھا اور پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ کہ تو ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ ہم پھر تیری راہ میں جہاد کریں اور شہادت حاصل کریں اللہ نے جواب دیا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی لوٹ کر پھر دنیا میں نہیں جائے گا پھر فرماتا ہے کہ انہیں اجر و نور ملے گا جو نور ان کے سامنے رہے گا اور ان کے اعمال کے مطابق ہو گا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے شہیدوں کی چار قسمیں ہیں ۔ 1وہ پکے ایمان والا مومن جو دشمن اللہ سے بھڑ گیا اور لڑتا رہا یہاں تک کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اس کا وہ درجہ ہے کہ اہل محشر اس طرح سر اٹھا اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنا سر اس قدر بلند کیا کہ ٹوپی نیچے گر گئی اور اس حدیث کے راوی حضرت عمر نے بھی اسے بیان کرنے کے وقت اتنا ہی اپنا سر بلند کیا کہ آپ کی ٹوپی بھی زمین پر جا پڑی۔ 2 دوسرا وہ ایمان دار نکلا جہاد میں لیکن دل میں جرات کم ہے کہ یکایک ایک تیر آ لگا اور روح پرواز کر گئی ہی دوسرے درجہ کا شہید جنتی ہے ۔ 3 تیسرا وہ جس کے بھلے برے اعمال تھے لیکن رب نے اسے پسند فرما لیا اور میدان جہاد میں کفار کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی تیسرے درجے میں ہیں۔ چوتھا وہ جس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جہاد میں نکلا اور اللہ نے شہادت نصیب فرما کر اپنے پاس بلوا لیا۔ ان نیک لوگوں کا انجام بیان کر کے اب بد لوگوں کا نتیجہ بیان کیا کہ یہ جہنمی ہیں۔