اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿20﴾
‏ [جالندھری]‏ جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ اور زینت (و آرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (و ستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی ہے اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے!) تو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے
امر دنیا کی تحقیر و توہین بیان ہو رہی ہے کہ اہل دنیا کو سوائے لہو و لعب زینت و فخر اور اولاد و مال کی کثرت کی چاہت کے اور ہے بھی کیا؟ جیسے اور آیت میں ہے (زین للناس حب الشھوات) الخ، یعنی لوگوں کے لئے ان کی خواہش کی چیزوں کو مزین کر دیا گیا ہے جیسے عورتیں بچے وغیرہ پھر حیات دنیا کی مثال بیان ہو رہی ہے کہ اس کی تازگی فانی ہے اور یہاں کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ غیث کہتے ہیں اس بارش کو جو لوگوں کی نا امیدی کے بعد برسے۔ جیسے فرمان ہے آیت (وھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا) الخ، اللہ وہ ہے جو لوگوں کی نا امیدی کے بعد بارش برساتا ہے۔ پس جس طرح بارش کی وجہ سے زمین سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ لہلہاتی ہوئی کسان کی آنکھوں کو بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں، اسی طرح اہل دنیا اسباب دنیوی پر پھولتے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی ہری بھری کھیتی خشک ہو کر زرد پڑ جاتی ہے پھر آخر سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کی ترو تازگی اور یہاں کی بہبودی اور ترقی بھی خاک میں مل جانے والی ہے، دنیا کی بھی یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایک وقت جوان ہے پھر ادھیڑ ہے پھر بڑھیا ہے، ٹھیک اسی طرح خود انسان کی حالت ہے اس کے بچپن جوانی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کو دیکھتے جائیے پھر اس کی موت اور فنا کو سامنے رکھے، کہاں جوانی کے وقت اس کا جوش و خروش زور طاقت اور کس بل؟ اور کہاں بڑھاپے کی کمزوری جھریاں پڑا ہوا جسم خمیدہ کمر اور بےطاقت ہڈیاں؟ جیسے ارشاد باری ہے آیت (اللہ ھوالذی خلقکم من ضعف) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد قوت دی پھر اس وقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کر دیا وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور وہ عالم اور قادر ہے ۔ اس مثال سے دنیا کی فنا اور اس کا زوال ظاہر کر کے پھر آخرت کے دونوں منظر دکھا کر ایک سے ڈراتا ہے اور دوسرے کی رغبت دلاتا ہے، پس فرماتا ہے عنقریب آنے والی قیامت اپنے ساتھ عذاب اور سزا کو لائے گی اور مغفرت اور رضامندی رب کو لائے گی، پس تم وہ کام کرو کہ ناراضگی سے بچ جاؤ اور رضا حاصل کر لو سزاؤں سے بچ جاؤ اور بخشش کے حقدار بن جاؤ، دنیا صرف دھوکے کی ٹٹی ہے اس کی طرف جھکنے والے پر آخر وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں کرتا اسی کی دھن میں روز و شب مشغول رہتا ہے بلکہ اس کمی والی اور زوال والی کمینی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتا ہے، شدہ شدہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات آخرت کا منکر بن جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک کوڑے برابر جنت کی جگہ ساری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ پڑھو قرآن فرماتا ہے کہ دنیا تو صرف دھوکے کا سامان ہے (ابن جریر) آیت کی زیادتی بغیر یہ حدیث صحیح میں بھی ہے واللہ اعلم۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے ہر ایک سے جنت اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنا تمہارا جوتی کا تسمہ اور اسی طرح جہنم بھی (بخاری) پس معلوم ہوا کہ خیر و شر انسان سے بہت نزدیک ہے اور اس لئے اسے چاہئے کہ بھلائیوں کی طرف سبقت کرے اور برائیوں سے منہ پھیر کر بھاگتا رہے۔ تاکہ گناہ اور برائیاں معاف ہو جائیں اور ثواب اور درجے بلند ہو جائیں۔ اسی لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا دوڑو اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی جنس کے برابر ہے، جیسے اور آیت (وسارعوا الی مغفرۃ) میں ہے اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف سبقت کرو جس کی کشادگی کل آسمان اور ساری زمینیں ہیں جو پارسا لوگوں کے لئے بنائی گی ہیں۔ یہاں فرمایا یہ اللہ رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے، یہ لوگ اللہ کے اس فضل کے لائق تھے اسی لئے اس بڑے فضل و کرم والے نے اپنی نوازش کے لئے انہیں چن لیا اور ان پر اپنا پورا احسان اور اعلیٰ انعام کیا۔ پہلے ایک صحیح حدیث بیان ہو چکی ہے کہ مہاجرین کے فقراء نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ تو جنت کے بلند درجوں کو اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کو پا گئے آپ نے فرمایا یہ کیسے؟ کہا نماز روزہ تو وہ اور ہم سب کرتے ہیں لیکن مال کی وجہ سے وہ صدقہ کرتے ہیں غلام آزاد کرتے ہیں جو مفلسی کی وجہ سے ہم سے نہیں ہو سکتا آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں کہ اس کے کرنے سے تم ہر شخص سے آگے بڑھ جاؤ گے مگر ان سے جو تمہاری طرح خود بھی اس کو کرنے لگیں، دیکھو تم ہر فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہو اور اتنی ہی بار اللہ اکبر اور اسی طرح الحمد اللہ۔ کچھ دنوں بعد یہ بزرگ پھر حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مال دار بھائیوں کو بھی اس وظیفہ کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا آپ نے فرمایا یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔