يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿28﴾
‏ [جالندھری]‏ مومنو! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے روشنی کر دے گا جس میں چلو گے اور تم کو بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال
اس سے پہلے کی آیت میں بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہل کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا جیسے کہ سورۃ قصص کی آیت میں ہے اور جیسے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین شخصوں کو اللہ تعالٰی دوہرا اجر دے گا ایک وہ اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لایا پھر مجھ پر بھی ایمان لایا اسے دوہرا اجر ہے اور وہ غلام جو اپنے آقا کی تابعداری کرے اور اللہ کا حق بھی ادا کرے اسے بھی دو دو اجر ہیں اور وہ شخض جو اپنی لونڈی کو ادب سکھائے اور بہت اچھا ادب سکھائے یعنی شرعی ادب پھر اسے آزاد کر دے اور نکاح کر دے وہ بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے (بخاری و مسلم) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب اہل کتاب اس دوہرے اجر پر فخر کرنے لگے تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت اس امت کے حق میں نازل فرمائی۔ پس انہیں دوہرے اجر کے بعد نور ہدایت دینے کا بھی وعدہ کیا اور مغفرت کا بھی پس نور اور مغفرت انہیں زیادہ ملی (ابن جریر) اسی مضمون کی ایک آیت (یاایھا الذین امنوا ان تتقوا اللہ) الخ، ہے یعنی اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لئے فرقان کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا اللہ بڑے فضل والا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم سے دریافت فرمایا کہ تمہیں ایک نیکی پر زیادہ سے زیادہ کس قدر فضیلت ملتی ہے اس نے کہا ساڑھے تین سو تک، آپ نے اللہ کا شکر کیا اور فرمایا ہمیں تم سے دوہرا اجر ملا ہے۔ حضرت سعید نے اسے بیان فرما کر یہی آیت پڑھی اور فرمایا اسی طرح جمعہ کا دوہرا اجر ہے، مسند احمد کی حدیث میں ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخض جیسی ہے جس نے چند مزدور کسی کام پر لگانے چاہے اور اعلان کیا کہ کوئی ہے جو مجھ سے ایک قیراط لے اور صبح کی نماز سے لے کر آدھے دن تک کام کرے؟ پس یہود تیار ہو گئے، اس نے پھر کہا ظہر سے عصر تک اب جو کام کرے اسے میں ایک قیراط دوں گا، اس پر نصرانی تیار ہوئے کام کیا اور اجرت لی اس نے پھر کہا اب عصر سے مغرب تک جو کام کرے میں اسے دو قیراط دوں گا پس وہ تم مسلمان ہو، اس پر یہود و نصاریٰ بہت بگڑے اور کہنے لگے کام ہم نے زیادہ کیا اور دام انہیں زیادہ ملے۔ ہمیں کم دیا گیا۔ تو انہیں جواب ملا کہ میں نے تمہارا کوئی حق تو نہیں مارا؟ انہوں نے کہا ایسا تو نہیں ہوا۔ جواب ملا کہ پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں دو، صحیح بخاری شریف میں ہے مسلمانوں اور یہود نصرانیوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے چند لوگوں کو کام پر لگایا اجرت ٹھہرالی اور کہا دن بھر کام کرکے کہہ دیا کہ اب ہمیں ضرورت نہیں جو ہم نے کیا اس کی اجرت بھی نہیں چاہتے اور اب ہم کام بھی نہیں کریں گے، اس نے انہیں سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کرو کام پورا کرو اور مزدوری لے جاؤ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کام ادھورا چھوڑ کر اجرت لئے بغیر چلتے بنے، اس نے اور مزدور لگائے اور کہا کہ باقی کام شام تک تم پورا کرو اور پورے دن کی مزدوری میں تمہیں دوں گا، یہ کام پر لگے، لیکن عصر کے وقت یہ بھی کام سے ہٹ گئے اور کہہ دیا کہ اب ہم سے نہیں ہو سکتا ہمیں آپ کی اجرت نہیں چاہئے اس نے انہیں بھی سمجھایا کہ دیکھو اب دن باقی ہی کیا رہ گیا ہے تم کام پورا کرو اور اجرت لے جاؤ لیکن یہ نہ مانے اور چلے گئے، اس نے پھر اوروں کو بلایا اور کہا لو تم مغرب تک کام کرو اور دن بھر کی مزدوری لے جاؤ چنانچہ انہوں نے مغرب تک کام کیا اور ان دونوں جماعتوں کی اجرت بھی یہی لے گئے، پس یہ ہے ان کی مثال اور اس نور کی مثال جسے انہوں نے قبول کیا۔ پھر فرماتا ہے یہ اس لئے کہ اہل کتاب یقین کر لیں کہ اللہ جسے دے یہ اس کے لوٹانے کی اور جسے نہ دے اسے دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور اس بات کو بھی وہ جان لیں کہ فضل و کرم کا مالک صرف وہی پروردگار ہے، اس کے فضل کا کوئی اندازہ و حساب نہیں لگا سکتا۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت (لئلا یعلم) کا معنی (لیعلم) ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں (لکی یعلم) ہے، اسی طرح حضرت عطا بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے۔ غرض یہ ہے کہ کلام عرب میں لا صلہ کیلئے آتا ہے جو کلام کے اول آخر میں آ جاتا ہے اور وہاں سے انکار مراد نہیں ہوتا جیسے آیت ( ما منعک الا تسجد) میں ہے اور آیت (وما یشعرکم انھا اذا جاءت لا یومنون) میں اور آیت (وحرام علی قریتہ اھلکناھا انھم لا یرجعون) میں ۔ الحمد للہ سورۃ حدید کی تفسیر ختم ہوئی۔ 
اللہ تعالٰی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس ستائیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ اللہ تعالٰی قبول فرمائے اور ہمیں اپنے پاک کلام کی صحیح سمھجھ دے اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ میرے مہربان اللہ! میرے عاجز ہاتھوں سے اس پاک تفسیر کو پوری کرا، اسے مکمل مطبوع مجھے دکھا دے، مقبولیت عطا فرما اور اس پر ہمیں عمل نصیب فرما۔ اے دلوں کے بھید سے آگاہ اللہ! میری عاجزانہ التماس ہے کہ میرے نامہ اعمال میں اسے ثبت فرما اور میرے تمام گناہوں کا کفارہ اسے کر دے اور اس کے پڑھنے والوں پر رحم فرما اور ان کے دل میں ڈال کہ وہ میرے لئے بھی رحم کی دعا کریں ۔ یا رب اپنے سچے دین کی اور اپنے غلاموں کی تائید کر اور اپنے نبی کے کلام کو سب کے کلاموں پر غالب رکھ۔ آمین!