يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ۚ ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿10﴾
‏ [جالندھری]‏ مومنو جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کر لو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔ اور جو کچھ انہوں نے (ان پر) خرچ کیا ہو وہ ان کو دے دو اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کر لو اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو) واپس دے دو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو ان سے طلب کر لو اور جو کچھ انہوں نے (اپنی عورتوں پر) خرچ کیا ہو وہ تم سے طلب کرلیں یہ خدا کا حکم ہے جو تم میں فیصلہ کیے دیتا ہے اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
صلح حدیبیہ کا ایک پہلو
سورہ فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہو چکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کر دیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کر دیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابومیط رضی اللہ تعالٰی عنہا مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کر دی گئی، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالٰی کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہو جائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہو جائے کہ یہ با ایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہو جانا ممکن امر ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کر دیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کر دو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کر لیا اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ بھیج بھی دیا، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابوالعاص کو اللہ تعالٰی نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کر دیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابوالعاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کر لینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کر لے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کر دو جیسے کہ مہر ۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا با ایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کر دو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابوامیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کر لیا یہ بھی مشرک تھا، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کر لیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آ جائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہو چکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کر دیا اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آ جائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو، یعنی مہر مثل ، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ۔