وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿7﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اس سے ظالم کون کہ بلایا جائے تو اسلام کی طرف اور وہ خدا پر جھوٹ بہتان باندھے۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ‏
تفسیر ابن كثیر
سطوت و اتمام نور
ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالٰی پر جھوٹ افترا باندھے اور اس کے شریک و سہیم مقرر کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اگر یہ شخص بےخبر ہوتا جب بھی ایک بات تھی یہاں تو یہ حالت ہے کہ وہ توحید اور اخلاص کی طرف برابر بلایا جا رہا ہے، بھلا ایسے ظالموں کی قسمت میں ہدایت کہاں؟ ان کفار کی چاہت تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے رد کر دیں، ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سورج کی شعاع کو اپنے منہ کی پھونک سے بےنور کرنا ہے، جس طرح اس کے منہ کی پھونک سے سورج کی روشنی کا جاتا رہنا محال ہے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ کا دین ان کفار سے رد ہو جائے، اللہ تعالٰی فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا، کافر برا مانیں تو مانتے رہیں۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین کی حقانیت کو واضح فرمایا، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر سورہ برات میں گذر چکی ہے۔ فالحمد اللہ