قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ يُجِيرُ الْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿28﴾
‏ [جالندھری]‏ کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر خدا مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر مہربانی کرے تو کون ہے جو کافروں کو دکھ دینے والے عذاب سے پناہ دے ‏
تفسیر ابن كثیر
زمین سے پانی ابلنا بند ہو جائے تو؟ 
اللہ تعالٰی فرماتا ہے اے نبی! ان مشرکوں سے کہو جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کر رہے ہیں کہ تم اس بات کی تمنا کر رہے ہو کہ نقصان پہنچے تو فرض کرو کہ ہمیں اللہ کی طرف سے نقصان پہنچایا اس نے مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر رحم کیا لیکن اس سے تمہیں کیا؟ صرف اس امر سے تمہارا چھٹکارا تو نہیں ہو سکتا؟ تمہاری نجات کی صورت یہ تو نہیں، نجات تو موقوف ہے توبہ کرنے، اللہ کی طرف جھکنے پر، اس کے دین کو مان لینے پر، ہمارے بچاؤ یا ہلاکت پر تمہاری نجات نہیں، تم ہمارا خیال چھوڑ کر اپنی بخشش کی صورت تلاش کرو۔ پھر فرمایا ہم رب العالمین رحمن و رحیم پر ایمان لا چکے اپنے تمام امور میں ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے، جیسے ارشاد فرمایا آیت (فاعبدہ و توکل علیہ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر، اب تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا اور آخرت میں فلاح وبہبود کسے ملتی ہے اور نقصان و خسران میں کون پڑتا ہے؟ رب کی رحمت کس پر ہے؟ اور ہدایت پر کون ہے؟ اللہ کا غضب کس پر ہے اور بری راہ پر کون ہے؟ پھر فرماتا ہے اگر اس پانی کو جس کے پینے پر انسانی زندگی کا مدار ہے زمین چوس لے یعنی زمین سے نکلے ہی نہیں گو تم کھودتے تھک جاؤ تو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی ہے جو بہنے والا ابلنے اور جاری ہونے والا پانی تمہیں دے سکے؟ یعنی اللہ کے سوا اس پر قادر کوئی نہیں، وہی ہے جو اپنے فضل و کرم سے صاف نتھرے ہوئے اور صاف پانی کو زمین پر جاری کرتا ہے جو ادھر سے ادھر تک پھر جاتا ہے اور بندوں کی حاجتوں کو پوری کرتا ہے، ضرورت کے مطابق ہر جگہ بآسانی مہیا ہو جاتا ہے، فالحمد للہ۔ 
اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے سورۃ ملک کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد للہ رب العالمین۔ 
(حدیث میں ہے کہ اس آیت کے جواب میں اللہ رب العالمین کہنا چاہئے۔ مترجم)۔