إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ ہم نے نوح کو ان کی قوم کر طرف بھیجا کہ پیشتر اسکے کہ ان پر درد دینے والا عذاب واقع ہو اپنی قوم کو ہدایت کر دو ‏
تفسیر ابن كثیر
عذاب سے پہلے نوح علیہ السلام کا قوم سے خطاب 
اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کرلیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا، حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، آیت (یغفرلکم من ذنوبکم) میں لفظ (من) یہاں زائد ہے، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ (من) زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے (قد کان من مطر) میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں عن کے ہو بلکہ ابن جریر تو اسی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ قول بھی ہے کہ من تبعیض کے لئے ہے یعنی تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا، اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اطاعت اللہ اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لئے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے، اس بڑے کی بڑائی نے ہرچیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے۔