وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا ﴿10﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں انکو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو ‏
تفسیر ابن كثیر
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی 
اللہ تبارک و تعالٰی اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے؟ سخت قید و بند کے ، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہو گاجب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہو گا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہو گئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالٰی حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہو جاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورہ حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔