وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا ۚ كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ ﴿31﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے دوزخ کے داروغہ فرشتے بنائے ہیں اور ان کا شمار کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا ہے (اور) اس لئے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو اور اہل کتاب اور مومن شک نہ لائیں اور اس لئے کہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے اور (جو) کافر (ہیں) کہیں کہ اس مثال (کے بیان کرنے) سے خدا کا مقصود کیا ہے؟ اسی طرح خدا جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہں جانتا۔ اور یہ تو بنی آدم کے لیے نصحیت ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
سخت دل بےرحم فرشتے اور ابوجہل
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بےرحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابوجہل نے کہا اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو نہ تھکا سکو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابوالاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں، یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے، یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا، امام ابن اسحاق نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے، میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں (ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو) واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لئے ، ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا، دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا، کہ اس رسول کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے، تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے ہیں، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے یہ نہ سمجھ لینا کہ بس انیس ہی ہیں، جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد عقول عشرہ اور نفوس تسعہ ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی؟ بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا صوف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی، مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پاسکتے بلک ہفریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان سے بےساختہ یہ نکل جاتا کاش کہ میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور حضرت ابوذر سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے، طبرانی میں ہے ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھر یا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب الصلوۃ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ سے سوال کیا کہ کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا، آپ نے فرمایا آسمانوں کا چرچر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں، دوسری روایت میں ہے آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو، اسی لۓ فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے۔ آیت (وما منا الا لہ مقام معلوم وانا لنحن الصافون وانا لنحن المسبحون) یعنی ہم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں، اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے، دوسری روایت میں یہ قول حضرت ابن مسعود کا بیان کیا گیا ہے، ایک اور سند سے یہ روایت حضرت ابن علاء بن سعد سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے رضی اللہ تعالٰی عنہ، لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے ایک اور بہت ہی غریب بلکہ سخت منکر حدیث میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے نماز کھڑی ہوئی تھی اور تین شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں کا ایک ابوحجش لیثی تھا آپ نے فرمایا اٹھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ تو وہ شخص تو کھڑے ہوگئے لیکن ابو جحش کہنے لگا اگر کوئی ایسا شخص آئے جو طاقت و قوت میں مجھ سے زیادہ ہو اور مجھ سے کشتی لڑے اور مجھے گرا دے پھر میرا من مٹی میں ملا دے تو تو میں اٹھوں گا ورنہ بس اٹھ چکا، حضرت عمر نے فرمایا اور کون آئے گا آجا میں تیار ہوں چنانچہ کشتی ہونے لگی اور میں نے اسے پچھاڑا پھر اس کے منہ کو مٹی میں مل دیا اور اتنے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ آ گئے اور اسے میرے ہاتھ سے چھڑا دیا، میں بڑا بگڑا اور اسی غصہ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا ابو حفص آج کیا بات ہے؟ میں نے کل واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر عمر اس سے خوش ہوتا تو اس پر رحم کرتا اللہ کی قسم میرے نزدیک تو اس خبیث کا سر اتار لیتا تو اچھا تھا، یہ سنتے ہی حضرت عمر یونہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف لپکے۔ خاصی دور نکل چکے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا بیٹھو سن تو لو کہ اللہ ابو جحش کی نماز سے بالکل بےنیاز ہے آسمان دنیا میں خشوع و خضوع والے بیشمار فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں جو قیامت کو سجدے سے سر اٹھائیں گے اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اب بھی ہمارے رب ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا، اسی طرح دوسرے آسمان میں بھی یہی حال ہے، حضرت عمر نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسبیح کیا ہے؟ فرمایا آسمان دنیا کے فرشتے تو کہتے ہیں دعا(سبحان ذی الملک والملکوت) اور دوسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں دعا(سبحان ذی العزۃ والجبروت) اور تیسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں دعا(سبحان الحی الذی لا یموت) عمر تو بھی اپنی نماز میں اسے کہا کرو حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے جو پڑھنا آپ نے سکھایا ہے اور جس کے پڑھنے کو فرمایا ہے اس کا کیا ہو گا کہا کبھی یہ کہو کبھی وہ پڑھو پہلے جو پڑھنے کو آپ نے فرمایا تھا وہ یہ تھا دعا(اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخطک واعوذ بک منک جل وجھک) یعنی اللہ تیرے ہی پناہ پکڑتا ہوں اور تیرا چہرہ جلال والا ہے اور اسحاق مروزی جو راوی حدیث ہے اس سے حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ راویوں میں گنتے ہیں لیکن حضرت امام ابو داؤد امام نسائی امام عقیلی اور امام دار قطنی انہیں ضعیف کہتے ہیں، امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں تھے تو یہ سچے مگر نابینا ہو گئے تھے اور کبھی کبھی تلقین قبول کر لیا کرتے تھے ہاں ان کی کاتبوں کی مرویات صحیح ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ مضطرب ہیں اور ان کے استاد عبدالملک بن قدامہ ابوقتادہ جمعی میں بھی کلام ہے، تعجب ہے کہ امام محمد بن نصر رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی اس حدیث کو کیسے روایت کر دیا؟ اور نہ تو اس پر کلام کیا نہ اس کے حال کو معلوم کرایا، نہ اس کے بعض راویوں کے ضعف کو بیان کیا۔ ہاں اتنا تو کیا ہے کہ اسے دوسری سند سے مرسلاً روایت کر دیا ہے اور مرسل کی دو سندیں لائے ہیں ایک حضرت سعید بن جبیر دوسری حضرت حسن بصری سے، پھر ایک اور روایت لائے ہیں کہ حضرت عدی بن ارطاۃ نے مدائن کی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں فرمایا کہ میں نے ایک صحابی سے سنا ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالٰی کے بہت سے ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت خوف اللہ سے کپکپاتے رہتے ہیں ان کے آنسو گرتے رہتے ہیں اور وہ ان فرشتوں پر ٹپکتے ہیں جو نماز میں مشغول ہیں اور ان میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ابتداء دنیا سے رکوع میں ہی ہیں اور بعض سجدے میں ہی ہیں قیامت کے دن اپنی پیٹھ اور اپنا سر اٹھائیں گے اور نہایت عاجزی سے جناب باری تعالٰی میں عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں۔ پھر فرماتا ہے یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لئے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے۔ پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے، جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے۔ جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے، اس سے دور بھاگتا رہے، یا اسے رد کرتا رہے۔