هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى ﴿15﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا تم کو موسیٰ کی حکایت پہنچی ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
معفرت دل حق کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے
اللہ تعالٰی اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور معجزات سے ان کی تائید کی، لیکن باوجود اس کے فرعون اپنی سرکشی اور اپنے کفر سے باز نہ آیا بالاخر اللہ کا عذاب اترا اور برباد ہو گیا، اسی طرح اے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مخالفین کا بھی حشر ہو گا۔ اسی لئے اس واقعہ کے خاتمہ پر فریاد ڈر والوں کے لئے اس میں عبرت ہے ، پس فرماتا ہے کہ تجھے خبر بھی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام کو اس کے رب نے آواز دی جبکہ وہ ایک مقدس میدان میں تھے جس کا نام طویٰ ہے۔ اس کا تفصیل سے بیان سورہ طہ میں گزر چکا ہے، آواز دے کر فرمایا کہ فرعون نے سرکشی تکبر، تجبر اور تمرد اختیار کر رکھا ہے تم اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا یہ پیغام دو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میری بات مان کر اس راہ پر چلے جو پاکیزگی کی راہ ہے، میری سن میری مان، سلامتی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کر لے گا، میں تجھے اللہ کی عبادت کے وہ ریقے بتاؤں گا جس سے تیرا دل نرم اور روشن ہو جائے اس میں خشوع و خضع پیدا ہو اور دل کی سختی اور بدبختی دور ہو۔ حضرت موسیٰ فرعون کے پاس پہنچے اللہ کا فرمان پہنچایا، حجت ختم کی دلائل بیان کئے یہاں تک کہ اپنی سچائی کے ثبوت میں معجزات بھی دکھائے لیکن وہ برابر حق کی تکذیب کرتا رہا اور حضرت موسیٰ کی باتوں کی نافرمانی پر جما رہا چونکہ دل میں کفر جا گزیں ہو چکا تھا اس سے طبیعت نہ ہٹی اور حق واضح ہو جانے کے باوجود ایمان و تسلیم نصیب نہ ہوئی، یہ اور بات ہے کہ دل سے جانتا تھا کہ یہ حق برحق نبی ہیں اور ان کی تعلیم بھی برحق ہے لیکن دل کی معرفت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے دل کی معرفت پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے کہ حق کا تابع فرمان بن جائے اور اللہ رسول کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے جھک جائے۔ پھر اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور خلاف حق کوشش کرنے لگا جادو گروں کو جمع کر کے ان کے ہاتھوں حضرت موسیٰ کو نیچا دکھانا چاہا۔ اپنی قوم کو جمع کیا اور اس میں منادی کی کہ تم سب میں بلند و بالا میں ہی ہوں، اس سے چالیس سال پہلے وہ کہہ چکا تھا کہ آیت (ما علمت لکم من الہ غیری) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا معبود کوئی اور بھی ہو، اب تو اس کی طغیانی حد سے بڑھ گئی اور صاف کہہ دیا کہ میں ہی رب ہوں، بلندیوں والا اور سب پر غالب میں ہی ہوں، اللہ تعالٰی فرماتا ہے ہم نے بھی اس سے وہ اتنقام لیا جو اس جیسے تمام سرکشوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ سبب عبرت بن جائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس کے بدترین عذاب تو ابھی باقی ہیں، جیسے فرمایا آیت (وجعلنا ھم ائیمتہ یدعون الی النار و یوم القیامتہ لا ینصرون) یعنی ہم نے انہیں جہنم کی طرف بلانے والے پیش رو بنائے قیامت کے دن یہ مدد نہ کئے جائیں گے، پس صحیح تر معنی آیت کے یہی ہیں کہ آخرت اور اولیٰ سے مراد دنیا اور آخرت ہے، بعض نے کہا ہے اول آخر سے مراد اس کے دونوں قول ہیں یعنی پہلے یہ کہنا کہ میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی اللہ نہیں، پھر یہ کہنا کہ تمہارا سب کا بلند رب میں ہوں، بعض کہتے ہیں مراد کفر و نافرمانی ہے، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، اس میں ان لوگوں کے لئے عبرت و نصیحت ہے جو نصیحت حاصل کریں اور باز آ جائیں۔