إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿13﴾
‏ [جالندھری]‏ بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے ‏
تفسیر ابن كثیر
ابرار کا کردار
جو لوگ اللہ تعالٰی کے اطاعت گزار فرمانبردار ، گناہوں سے دور رہتے ہیں انہیں اللہ تعالٰی جنت کی خوش خبری دیتا ہے حدیث میں ہے کہ انہیں ابرار اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے ، بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے ، قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہو گا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ موت آئے گی نہ راحت ملے گی نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے ۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمھیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ عذاب سے نجات دلا سکے گا ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے ۔ اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کر لو میں تمھیں اس دن اللہ تعالٰی کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ حدیث سورہ شعراء کی تفسیر کے آخر میں گزر چکی ہے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (لمن الملک الیوم للّٰہ الواحد القھار) اور جگہ ارشاد ہے آیت (الملک یومئذ الحق للرحمٰن اور فرمایا آیت (مالک یوم الدین) مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد قہار و رحمٰن کی ہی ہو گی ۔ گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت ، ملکیت اور امر بھی نہ ہو گا۔ سورہ انفطار کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔