سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ‏
تفسیر ابن كثیر
مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت (فسبح باسم ربک العظیم) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کر لو جب آیت (سبح اسم ربک الاعلی) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کر لو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت (سبح اسم ربک الاعلی) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت (لا اقسم بیوم القیامۃ) پڑھتے اور آخری آیت (الیس ذالک بقادرعلی ان یحیی الموتی) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالٰی یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت (ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کر دیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کر دیں گے نہ اس میں کجی ہو گی نہ سختی نہ جرم ہو گا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آ سکیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہو جائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں ۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر سکتا جو بد بخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مر جائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت (ونادوا یا مالک لیقض علینا ربک) الخ یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت (لا یقضی علیھم فیموتوا الخ یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں۔