سر سید کے والد میر متقی، ایک نہایت آزاد منش آدمی تھے۔ خصوصاً جب سے شاہ غلام علی صاحب کے مرید ہو گئے تھے ان کی طبیعت میں اور بھی زیادہ بے تعلقی پیدا ہو گئی تھی۔ اس لئے اولاد کی تعلیم و تربیت کا مدار زیادہ تر بلکہ بالکل سر سید کی والدہ پر تھا۔ سر سید سے ایک دفعہ ان کے بچپن کے حالات پوچھے گئے تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ:
"میری تمام سر گذشت کے بیان کو یہ ایک شعر کافی ہے:"

طفلی و دامان مادر خوش بہشتے بودہ است 
چوں بپائے خود رواں گشتیم سر گرداں شدیم

" شاہ صاحب کو بھی ہم سب سے ایسی ہی محبت تھی جیسے حقیقی دادا کو اپنے پوتوں سے ہوتی ہے۔ شاہ صاحب نے تاہل اختیار نہیں کیا تھا اور وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ گو خدا تعالیٰ نے مجھے اولاد کے جھگڑوں سے آزاد رکھ ہے لیکن متقی کی اولاد کی محبت ایسی دے دی ہے کہ اس کے بچوں کی تکلیف یا بیماری مجھ کو بے چین کر دیتی ہے۔ "

اہل اللہ اور مقدس لوگوں کی عظمت کا خیال بچپن سے سر سید کے دل میں بٹھایا گیا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شاہ غلام علی صاحب کی خدمت میں بٹھائے جاتے تھے اور شاہ صاحب سے ان کی عقیدت کا رنگ اپنی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ:" مرزا صاحب کے عرس میں شاہ صاحب ایک روپیہ ان کے مزار پر چڑھایا کرتے تھے اور اس روپیہ کے لینے کا حق میرے والد کے سوا اور کسی کو نہ تھا۔ ایک دفعہ عرس کی تاریخ سے کچھ پہلے ایک مرید نے شاہ صاحب سے اجازت لے لی کہ اب کی بار نذر کا روپیہ مجھے عنایت ہو۔ میرے والد کو بھی خبر ہو گئی۔ جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھانے کا ارادہ کیا تو والد نے عرض کی کہ "حضرت! میرے اور میری اولاد کے جیتے جی آپ نذر کا روپیہ لینے کی اوروں کو اجازت دیتے ہیں؟ " شاہ صاحب نے فرمایا، " نہیں نہیں! تمہارے سوا کوئی نہیں لے سکتا۔" میں اس وقت صغیر سن تھا، جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھایا، والد نے مجھ سے کہا، " جاؤ روپیہ اٹھا لو! "میں نے آگے بڑھ کر روپیہ اٹھا لیا۔"

سر سید کہتے تھے کہ:
"شاہ صاحب اپنی خانقاہ سے کبھی نہیں اٹھتے تھے اور کسی کے ہاں نہیں جاتے تھے، الا ماشاء اللہ صرف میرے والد پر جو غایت درجہ کی شفقت تھی اس لئے کبھی کبھی ہمارے گھر قدم رنجہ فرماتے تھے۔"